شب قدر اور سنت اعتکاف کی فضیلت و اہمیت تحقیق و تحریر:محترمہ مسعودہ ریاض

 


الحَمدُلِلّٰهِ رَبِّ العٰلَمِیۡنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِالمُرسَلِیۡنَ

اَمَّا بَعدُ فَاَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ۔ بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔۔۔


اَلسَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔۔۔۔۔۔


شب قدر اور اس کی فضیلت

رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے‘ جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اسی رات کو اللّٰه تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ ہزار مہینے کے تراسی (83) برس چار ماہ بنتے ہیں۔ دو نکتے جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گزری اس نے تراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ ’’خیر من الف شھر‘‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللّٰه کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہے گا۔۔۔ عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔


شب قدر کا معنی و مفہوم

1. انما سمیت بذلک لعظمها و قدرها و شرفها.

(القرطبی‘ 20: 130)


امام زہری رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنی مرتبہ کے ہیں۔ چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے اس لئے اسے ’’لیلة القدر‘‘ کہا جاتا ہے۔


2. ان اللّٰه تعالٰی یقض الا قضیة فی لیلة نصف شعبان و یسلمها الی اربابها الٰی اربابها فی لیلة القدر.

(تفسیر القرطبی‘ 20: 130)


  حضرت عبداللّٰه بن عباس رضی اللّٰه عنہ سے مروی ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو تمام فیصلے فرما لیتا ہے اور چونکہ اس رات میں اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے ‘اس وجہ سے یہ ’’لیلة القدر‘‘ کہلاتی ہے۔


3. اس رات کو قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے:

  نزل فیها کتاب ذو قدر‘ علی لسان ذی قدر‘ علی امة لها قدر‘ و لعل ﷲ تعالی انما ذکر لفظة القدر فی هذہ السورة ثلاث مرات لهذا السبب.

(تفسیر کبیر‘ 32: 28)


اس رات میں اللّٰه تعالی نے اپنی قابل قدر کتاب قابل قدر امت کے لئے صاحبِ قدر رسول ﷺ کی معرفت نازل فرمائی یہی وجہ ہے کہ اس سورہ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے۔


4. قیل سمیت بذلک لان الارض تضیق باالملائکة فیها.

(تفسیر الخازن‘ 4: 395)


قدر کا معنی تنگی کا بھی آتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اسے قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔


5. وقال ابو بکر الوراق: سمیت بذلک لأن من لم یکن له قدر و لا خطر یصیر فی هذه الیلة اذ قدر إذا احیاها.

(تفسیر القرطبی‘ 20: 131)


امام ابوبکر الوراق قدر کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رات عبادت کرنے والے کو صاحب قدر بنا دیتی ہے۔ اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہیں تھا۔


یہ رات کیوں عطا ہوئی؟

اس کے حصول کا سب سے اہم سبب نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی اس امت پر شفقت اور آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی غم خواری ہے۔ 


موطا امام مالک میں ہے کہ:

  ان رسول ﷲ صلی اللّٰه علیه وآله وسلم اری اعمار الناس قبله او ماشاءﷲ من ذلک فکانه تقاصر اعمار امته عن ان لا یبلغوا من العمل مثل الذی بلغ غیرهم فی طول العمر فاعطاہ لیلة القدر خیر من الف شهر۔.


جب رسول پاک صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟(پس) آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرما دی۔ جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔

(موطا امام مالک‘ 1: 319‘ کتاب الصیام‘باب ماجاء فی لیلة القدر‘ رقم حدیث: 15)


اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللّٰه عنہ سے منقول روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا جس نے ایک ہزار ماہ تک اللّٰه تعالی کی راہ میں جہاد کیا تھا۔


فعجب رسول ﷲ صلی اللّٰه علیه وآله وسلم لذلک و تمنی ذالک لامته فقال یا رب جعلت امتی أقصر الامم الاعمارا و أقلها أعمالا فاعطاه ﷲ تبارک و تعالیٰ لیلة القدر.

(تفسیر الخازن‘ 4: 397)


تو آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی امت کے لئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پر اللّٰه تعالی نے شب قدر عنایت فرمائی۔


ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللّٰه عنہم کے سامنے مختلف شخصیات حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت حزقیل علیہ السلام، حضرت یوشع علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حضرات نے اسی اسی سال اللّٰه تعالی کی عبادت کی ہے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللّٰه تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ 

صحابہ کرام رضی اللّٰه عنہم کو ان برگزیدہ ہستیوں پر رشک آیا۔


امام قرطبی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں کہ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:

   یا محمد عجبت امتک من عبادة هولاء النفر ثمانین سنة، فقد انزل ﷲ علیک خیراً من ذلک ثم مقرأنا اَنْزَلْنَاهُ فِی لَیْلَة القَدْرِ فسر بذلک رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم.


اے نبی محترم ﷺ۔۔۔! آپ ﷺ کی امت کے لوگ ان سابقہ لوگوں کی اسی اسی سالہ عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپ ﷺ کے رب نے آپ کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے اور پھر سورۃ القدر کی تلاوت کی۔ اس پر رسول خدا صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔

(تفسیر القرطبی‘ 20: 132)


چنانچہ حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی طفیل یہ کرم فرمایا کہ اس امت کو لیلة القدر عنایت فرمادی اور اس کی عبادت کو اسّی نہیں بلکہ 83 سال چار ماہ سے بڑھ کر قرار دیا۔


امتِ محمدی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت:

لیلة القدر فقط آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمة اللّٰه علیہ حضرت انس رضی اللّٰه عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ 


رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان ﷲ وهب لامتی لیلة القدر لم یعطها من کان قبلهم.

(الدر المنثور‘ 6: 371)

یہ مقدس رات اللّٰه تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔


پہلی امتوں میں عابد کسے کہا جاتا تھا؟

مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ پہلی امتوں میں عابد اسے قرار دیا جاتا تھا جو ہزار ماہ تک اللّٰه تعالیٰ کی عبادت کرتا لیکن نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں اس امت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ ایک رات کی عبادت سے اس سے بہتر مقام حاصل کر لیتی ہے۔


قیل ان العابد کان فیما مضی یسمی عابداً حتی یعبد ﷲ الف شهر عبادة‘ فجعل ﷲ تعالی لامة محمد صلی اللّٰه علیه وآله وسلم عبادة لیلة خیر من الف شهر کانوا یعبدونها.


سابقہ امتوں کا عابد وہ شخص ہوتا جو ایک ہزار ماہ تک اللّٰه تعالی کی عبادت کرتا تھا۔ لیکن اس کے مقابلے میں اللّٰه تعالی نے اس امت کے افراد کو یہ شبِ قدر عطا کر دی جس کی عبادت اس ہزار ماہ سے بہتر قرار دی گئی۔

(فتح القدیر‘ 5: 472)


گویا یہ عظیم نعمت بھی سرکار دوجہاں صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے صدقہ میں امت کو نصیب ہوئی ہے۔


فضیلتِ شب قدر:  احادیث کی روشنی میں

سیدنا ابوہریرہ رضی اللّٰه عنہ سے مروی ہے کہ 


آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من قام لیلة القدر ایماناً و احتساباً غفرله ما تقدم من ذنبه.

جس شخص نے شب قدر میں اجر و ثواب کی امید سے عبادت کی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

(صحیح البخاری‘ 1: 270‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1910)


اس ارشاد نبوی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم میں جہاں لیلة القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر عبادت و طاعت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللّٰه تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو ریاکاری یا بدنیتی نہ ہو اور آئندہ عہد کرے کہ میں برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژدۂ مغفرت بن کر آتی ہے۔


حضرت سیدنا انس رضی اللّٰه عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان هذا الشهر قد حضرکم و فیه لیلة خیر من الف شهر من حرمها فقد حرم الخیر کله ولا یحرم خیرها الا حرم الخیر.


یہ جو ماہ تم پر آیا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو۔

(سنن ابن ماجه: 20‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1644)


ایسے شخص کی محرومی میں واقعتاً کیا شک ہو سکتاہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر بسر کرلیتا ہے تو اسّی سال کی عبادت سے افضل عبادت کے لئے دس راتیں کیوں نہیں جاگ سکتا۔


حضرت انس رضی اللّٰه عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے لیلة القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اذا کان لیلة القدر نزل جبرائیل علیه السلام فی کبکة من الملئکة یصلون علی کل عبد قائم او قاعد یذکر ﷲ عزوجل.

شب قدر کو جبرائیل امین علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں اور ہر شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے (یعنی کسی حال میں) اللّٰه کو یاد کر رہا ہو۔

(شعب الایمان‘ 3: 343)


شب قدر کو مخفی کیوں رکھا گیا؟

اتنی اہم اور بابرکت رات کے مخفی ہونے کی متعدد حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ 


ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسمِ اعظم جمعہ کے روز قبولیت دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو بھی مخفی رکھا گیا۔

اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہو جاتی اور اسی رات کے عمل پر اکتفا کر لیا جاتا۔ 

ذوقِ عبادت میں دوام کی خاطر اس کو آشکار نہیں کیا گیا۔

اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی انسان کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس کے صدمے کا ازالہ ممکن نہ ہوتا۔


اللّٰه تعالیٰ کو چونکہ اپنے بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب ہے اس لئے رات تعین نہ فرمائی تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزریں۔


  عدمِ تعین کی وجہ سے گنہگاروں پر شفقت بھی ہے کیونکہ اگر علم کے باوجود اس رات میں گناہ سرزد ہوتا تو اس سے لیلة القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لکھا جاتا۔ (التفسیر الکبیر‘ 32: 28)


  ایک جھگڑا علمِ شبِ قدر سے محرومی کا سبب بنا

ایک نہایت اہم وجہ اس کے مخفی کردینے کی جھگڑا بھی ہے۔ 

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللّٰه عنہ سے مروی حدیث میں موجود ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ اس رات کی تعین کے بارے میں اپنی امت کو آگاہ فرما دیں کہ یہ فلاں رات ہے۔ لیکن دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے بتلانے سے منع فرما دیا۔

 روایت کے الفاظ یوں ہیں:

خرج النبی صلی اللّٰه علیه وآله وسلم لیخبر بلیلة القدر فتلاحی رجلان من المسلمین‘ 

فقال: خرجت لأخبرکم بلیلة القدر فتلاحی فلاں و فلاں فرفعت.


ایک مرتبہ رسالت مآب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سب قدر کی تعین کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے لیکن راستہ میں دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے بارے میں اطلاع دینے آیا تھا مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے اس کی تعین اٹھالی گئی۔

(صحیح البخاری‘ 1: 271‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1919)


اس روایت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انسان اللّٰه تعالی کی بہت سی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت برکتوں اور سعادتوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ مذکورہ روایت سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید اس کے بعد تعین شب قدر کا آپ کو علم نہ رہا۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ شارحین حدیث نے تصریح کر دی ہے کہ تعین کا علم جو اٹھا لیا گیا تھا تو صرف اُسی ایک سال کی بات تھی ہمیشہ کے لئے نہیں۔


امام بدر الدین عینی شرح بخاری میں رقمطراز ہیں:

فان قلت لما تقرر ان الذی ارتفع علم تعینها فی تلک السنة فهل اعلم النبی صلی اللّٰه علیه وآله وسلم بعد ذلک بتعینها؟ 

قلت روی عن ابن عینیه انه اعلم بعد ذلک بتعینیها.


اس سال تعین شب قدر کا علم اٹھا لیا گیا اس کے بعد حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کو اس کی تعین کا علم رہا یا نہ؟ میں کہتا ہوں کہ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ آپ کو اس کے تعین کا علم تھا۔

(عمدة القاری‘ 11: 138)


شب قدر کی تعین کے بارے میں تقریباً پچاس اقوال ہیں

 ان میں سے دو اقوال نہایت ہی قابل توجہ ہیں۔


1۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰه عنہا سے مروی ہے کہ رسالت مآب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تحرو الیلة القدر فی الوتر من العشر الاواخر من رمضان.

لیلة القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

(صحیح البخاری‘ 1: 270‘ کتاب الصوم‘ رقم حدیث: 1913)


چونکہ اعتکاف کا مقصد بھی تلاشِ لیلة القدر ہے اس لئے ان آخری ایام کا اعتکاف سنت قرار دیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کو جب تک اللّٰه تعالی نے اس شب قدر کی تعین سے آگاہ نہیں فرمایا تھا آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم اس کی تلاش کے لئے پورا رمضان اعتکاف کرتے تھے لیکن جب آگاہ فرمادیا گیا تو وصال تک صرف آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے رہے۔


2۔ رمضان المبارک کی ستائسویں شب شبِ قدر کی رات ہے۔ جمہور علماء اسلام کی یہی رائے ہے۔ 

امام قرطبی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں:

قد اختلف العلماء فی ذالک والذی علیه المعظم انها لیلة سبع و عشرین.

( تفسیرالقرطبی‘ 20: 134)

علماء کا شب قدر کی تعین کے بارے میں اختلاف ہے لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ لیلة القدر کی رات ستائیسویں شب ہے۔


علامہ آلوسی رحمة اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

و کثیر منهم ذهب الی انها اللیلة السابعة من تلک الاوتار.

(روح المعانی‘ 30: 220)

علماء کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ طاق راتوں میں سے ستائیسویں ہے۔


شب قدر کا وظیفہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰه عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسالت مآب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ شب قدر کا کیا وظیفہ ہونا چاہے تو آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ کی تلقین فرمائی:


اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ

اے اللّٰه تو معاف کر دینے والا اور معافی کو پسند 

فرمانے والا ہے پس مجھے بھی معاف کر دے۔

(مسند احمد بن حنبل‘ 6: 171‘ 182)


                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اعتکاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


  اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ اعتکاف کے معنی ہیں 

    ’’جھک کر یکسوئی سے بیٹھ رہنا‘‘ 


  اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللّٰه تعالیٰ کے گھر میں یکسو ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ اللّٰه تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے۔ چنانچہ وہ اس گوشۂ خلوت میں بیٹھ کر توبہ و استغفار کرتا ہے۔ نوافل پڑھتا ہے، ذکر و تلاوت کرتا ہے۔ دعا و التجا کرتا ہے اور یہ سارے ہی کام عبادات ہیں۔ اس اعتبار سے اعتکاف گویا مجموعہ عبادات ہے شریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں۔ 

قرآن کریم سے استدلال : 

وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ 

(سورہ بقرہ: 187) 

ترجمہ: جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو۔


احادیث کی روشنی میں اعتکاف : 

نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم اس کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ رمضان کے آخری دس دن، رات دن مسجد کے ایک گوشے میں گزارتے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرما دیتے۔ نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم اتنی پابندی سے اعتکاف فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپ اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا۔ 

(صحیح بخاری، الاعتکاف، باب الاعتکاف فی شوال، حدیث : ۲۰۴۱)


اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے رمضان میں دس دن کی بجائے ۲۰ دن اعتکاف فرمایا۔ 

(صحیح بخاری، الاعتکاف، حدیث: ۲۰۴۴) 


سيدنا ابى بن كعب رضى اللّٰه عنه نے بیان کیا کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے. ایک سال آپ صلی اللّٰه عليه وسلم (سفر کی وجہ سے) اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو اگلے سال آپ صلی اللّٰه عليه وسلم نے بیس رات تک اعتکاف فرمایا. 

سنن ابو داؤد 2463


سيدنا ابو هريره رضى اللّٰه نے بیان کیا کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم ہر سال رمضان میں دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے. لیکن جس سال آپ صلی اللّٰه عليه وسلم كا انتقال هوا اس سال آپ صلى اللّٰه عليه وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا. 

صحیح بخاری 2044


سیدہ عائشہ رضی اللّٰه عنها نے بیان کیا کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے. اور آپ صلی اللّٰه عليه وسلم كے بعد ازواج مطہرات رضی اللّٰه عنهما اعتکاف کرتی رہیں. 

صحیح بخاری 2026


عبد ﷲ بن عباس رضی اللّٰه عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا : 

’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘

ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی ثواب الاعتکاف، 2 : 376، رقم : 21781


 حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللّٰه عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

 1.طبرانی، المعجم الاوسط، 7 : 221، رقم : 7326 ۔۔۔ 2. بيهقی، شعب الإيمان، 3 : 425، رقم : 3965 ۔۔۔ 3. هيثمی، مجمع الزوائد، 8 : 192 ۔۔۔

 ’’جو شخص ﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، ﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘


حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللّٰه عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

 مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْنِ. ۔۔۔ بيهقی، شعب الإيمان، باب الاعتکاف، 3 : 425، رقم : 3966


’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘ 

رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم جتنی عبادت میں محنت رمضان کے آخری عشرہ میں کرتے اتنی اور دنوں میں نا کرتے تھے. صحیح مسلم 2788


اعتکاف کے ضروری مسائل :

 اس موقع پر اعتکاف کے ضروری مسائل بھی سمجھ لینے مناسب ہیں اس کا آغاز ۲۰ رمضان المبارک کی شام سے ہوتا ہے۔ مُعْتکِف مغرب سے پہلے مسجد میں آجائے اور صبح فجر کی نماز پڑھ کر مُعْتکِف (جائے اعتکاف) میں داخل ہو۔


اس میں بلا ضروری مسجد سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بیمار کی مزاج پرسی ، جنازے میں شرکت اور اس قسم کے دیگر رفاہی اور معاشرتی امور میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اعتکاف جامع مسجد میں کیا جائے، یعنی جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔


عورتیں بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں۔ لیکن ان کے لیے اعتکاف بیٹھنے کی جگہ گھر ہیں۔ 

نبی کریم  صلی اللّٰه علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھتی رہی ہیں اور ان کے خیمے مسجد نبوی میں ہی لگتے تھے۔

جیسا کہ صحیح بخاری میں وضاحت موجود ہے اور 

قرآن کریم کی آیت 

﴿ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ﴾ 

(البقرة: ۱۸۷) سے بھی واضح ہے۔


اس لیے عورتوں کا گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا رواج بے اصل اور قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔ تاہم چونکہ یہ نفلی عبادت ہے، بنابریں جب تک کسی مسجد میں عورتوں کے لیے الگ مستقل جگہ نہ ہو، جہاں مردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بالکل نہ ہو، اس وقت تک عورتوں کو مسجدوں میں اعتکاف نہیں بیٹھنا چاہیے۔


ایک فقہی اصول ہے (ردء ۔۔۔۔ المصالح) ’’یعنی خرابیوں سے بچنا اور ان کے امکانات کو ٹالنا بہ نسبت مصالح حاصل کرنے کے، زیادہ ضروری ہے۔‘‘ اس لیے جب تک کسی مسجد میں عورت کی عزت و آبرو محفوظ نہ ہو، وہاں اس کے لیے اعتکاف بیٹھنا مناسب نہیں اس لئے علما نے عورتوں کا گھر پر نفلی اعتکاف جائز قرار دیا ہے اللّٰه پاک ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہماری عبادات کو قبول فرماے۔۔۔

 آمین ثم آمین


============= انتظامیہ ادبیات=============

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے