Ads

نوجوان مصنفہ مہر یکتا کا تعارف

 آج میں نوجوان نسل کی جس شخصیت کا انٹرویو آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہی ہوں وہ پی۔ایچ۔ڈی کی طالبہ ہیں اور اردو ادب سے دلچسپی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی سے ہی کئی اصناف ادب کو خوب صورتی سے اور کامیابی سے برتتی رہی ہیں ان کا تعلق سمستی پور بہار(انڈیا) سے ہے۔انشائیہ خاکے اور نظمیں لکھتی ہیں مجھے ان کی سادگی نے متاثر کیا انہیں قابل اساتذہ کی سرپرستی میسر رہی۔ آپ بھی پڑھیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں۔



سوال نمبر ا-آپ کا پورا نام کیا ہے؟

 جواب:مہر فاطمہ

قلمی نام مہر یکتا

سوال نمبر2- آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟

جواب:میرا تعلق سمستی پور بہار سے ہے۔

سوال نمبر 3- آپ کی تعلیم کیا ہے ؟

جواب:میری ابتدائی و ثانوی تعلیم رامپور یوپی سے ہوئی ہے۔

∆ 2014 میں اے،ایم،یو علی گڑھ سے بی اے کیاہے

∆2016میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے ایم اے کیا 

∆2018 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے ہی ایم فل کیا

ایم فل کا "موضوع وحید آلہ آبادی کی غزل گوئی" تھا

∆2019میں دہلی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا جو ابھی جاری ہے

موضوع "اٹھارویں صدی کی اردو غزل اور قائم چاند پوری" ہے

سوال نمبر4- آپ کو لکھنے کا شوق کب ہوا؟

جواب :مجھے لکھنے اور پڑھنے دونوں کا شوق اوائل عمری میں ہی ہوگیا تھا 

گھر میں اخبارات،رسائل اور ڈائجسٹ وغیرہ آتے تھے اور پہلے کے بھی سب موجود تھے 

چھ سات برس کی عمر میں تقریبا گھر میں موجود اکثررسائل اور کتابیں دیکھ اور پڑھ لی تھیں 

اور ان میں جو شاعری ہوتی تھی اس کو میں اپنے پاس نوٹ کرلیا کرتی تھی 

مجھے ہینڈ رائٹنگ بنانا اور اپنے نام کو  مختلف اسٹائل میں لکھنا پسند تھا 

میں جو غزل یا شاعری اپنے پاس نوٹ کرتی اس میں سے جو شعر سب سےزیادہ پسند آتا اس کو بھی بڑے بڑے حروف میں الگ الگ ڈیزائین میں لکھ کر دیوار پر چپکا لیتی تھی کبھی کبھی دیوار پر ہی کوئلہ سے یا کسی مارکر یا اسکیچ سے کچھ کچھ لکھ ڈالتی تھی جس پر ڈانٹ بھی بہت سننا پڑتی تھی

یہی وجہ ہے اسکول میں ایڈمشن ہونے کے بعد کاپی کتابوی پر زیادہ تر لوگ مجھ سے نام لکھوانے لگے 

پھر یہی شوق پروان چڑھتا گیااسکیچ خود سےکاٹ کر استعمال کرتی تھی  پوسٹر میکنگ وغیرہ کے مقابلے میں حصہ لینے لگی 

لکھنے کی ابتدا اسی طرح ہوئی کہ اشعار وغیرہ نوٹ کرتی کبھی کبھی اقوال یا اقتباس  وغیرہ بھی کٹنگ کرکے یا لکھ کر محفوظ کر لیتی تھی اور ایک دو لائن خود کی اور پھر شعر یا اقوال فٹ کرلیتی تھی 

مجھے جہاں تک یاد ہےکہ میری خود کی سب سے پہلی تحریر خط کی شکل میں تھی 

رامپور ہاسٹل سے والد صاحب کو پہلا خط لکھا تھا 

جس میں اشعار بھی لکھے تھے 

کئ اقوال بھی درج تھے پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا 

پھر ڈائری لکھنے کی بھی عادت ہوگئی ڈائری میں دن بھر کی مشغولیات کا ذکر وغیرہ لکھتی 

پھر مجھے کلاس میں مضمون نویسی میں بھی بہت شاباشی ملنے لگی 

کیونکہ اشعار کافی یاد تھے ان کو کہیں نہ کہیں فٹ کردیا کرتی تھی اس شعر کو بولڈ کردیا کرتی تھی یہی وجہ ہے کہ پھر مجھے سوالات یاد کرنے یا رٹنے کی ضرورت بھی  نہیں پڑی صرف پوائنٹ دیکھ لیتی اور اسی کو بڑھا چڑھا کر لکھ آتی 

رایٹنگ اور اشعار وغیرہ پلس پوائنٹ کا کام کرتے اور نمبر بہت اچھے آتے تھے باقی دوستوں نے جب دیکھا کہ میں اپنے نوٹس بھی نہیں بناتی کچھ دیر بس انکے نوٹس پر سری سری نظر ڈالتی اور پھر بھی نمبر زیادہ آجاتے تو انہوں نے نوٹس دینا ہی بند کردیا 

 جہاں سب لوگ دعا کرتے تھے کہ پڑھے ہوئے سوالات ایگزام میں آئیں تو میری دعا یہ رہتی تھی کہ آؤٹ آف سلیبس آئے تاکہ سب کے لئے بنا پڑھا ہوا ہو اور میں بات بنادوں اور بات بن جائیے یعنی نمبر اچھے مل جائیں 

خیر اسی طرح شوق پیدا اور پروان چڑھا۔

سوال نمبر 5- آپ کے  پسندیدہ استاد کون ہیں؟

جواب:مجھے اپنے اساتذہ سے الگ ہی لگاؤ رہا

کوئی بھی استاد ایسا نہیں جس سے میں نے  کچھ اخذ نہ کیا، ہو سیکھا نہ ہو 

یہی وجہ ہے کوئی ایک خاص نہیں بلکہ ہر شخصیت کی کچھ کچھ چیزیں مجھے ہمیشہ متوجہ کرتی رہی ہیں اور میں ان پر اپنی ذاتی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرتی ہوں 

اگر میں ماضی میں دیکھوں تو پروفیسرخالدمحمود،پروفیسر شہپر رسول،پرفیسر شہزاد انجم ،پروفیسر احمد محفوظ،پروفیسر کوثر مظہری ڈاکٹر ندیم احمد اور ڈاکٹر خالد مبشر نمایاں کردار نبھاتے نظر آتے ہیں

پروفیسر خالد محمود صاحب کی شخصیت ایک الگ مضمون کا تقاضا کرتی ہے انشاءاللہ اس پر بھی کوشش کی جائے گی 

ابھی ماضی کے جھروکوں سے کچھ یادیں تازہ ہوگئیں

جب میں اے ایم یو علی گڑھ سے نئی نئی جامعہ ملیہ دہلی آئی تھی

تو ظاہر نئی جگہ نئےلوگ اور نیا ماحول میں اس طرح سے ایڈجسٹ نہیں ہو پائی تھی 

دوست بھی نہیں تھا کوئی

ہاں| بڑی بہن اسی ڈپارٹمنٹ سے پی ایچ ڈی کر رہی تھیں 

تو وہ صبح میں کلاس میں چھوڑ جاتیں اور تاکید کرکے جاتیں کہ کلاس کرکے ہی آؤں ان کے پاس لائیبریری میں یا فون کردوں کہ ختم‌ہو گئی ہے تو وہ آجائیں گی 

کئی بار تو میں نے کلاس کی ہی نہیں اور ان کو فون کردیا کہ سر نہیں آئے 

وہ مجھے کینٹین لےجاتیں بات وات کھاتے پیتے اور ٹائم بھی ختم ہوجاتا اور میری جان میں جان آتی لیکن پھر ان کو بھی شک ہونے لگا تو وہ بولتیں کہ کلاس کرو پھر میں نے یہ کیا کہ راستے تو سمجھ آگئے تھے آرام سے گھر آجاتی

کئی بار ہوا کہ اپیا مجھے چھوڑ کر نارمل رکشے سے گھر آئیں اور میں ای رکشے سے ان سے پہلے ہی موجود 

میں بچپن میں بھی اسکول سے اتنا نہیں گھبرائی 

خیر تو ایک دن کلاس میں سب سے کم حاضری پر بہت ڈانٹااگلے دن سے ان کی کلاس میں پابندی سے جانے لگی اردو غزل پڑھاتے تھے میں نے دیکھا کہ کلاس تو اتنی دلچسپ ہوتی ہے 

شاعری سے دلچسپی تھی پڑھائی جانے والی غزلیں تو پہلے ہی سے مجھے یاد تھیں ایک بار سر نے مطلب پو چھا مجھ سے ضبط نہیں ہوا بتادیا پورا کلاس  سر سمیت حیرتی بنے ہوئے تھے کیونکہ میں اس سےپہلے صم بکم عمی کی تصویر بنی رہتی تھی 

سر نے بولا واہ تم تو بولتی بھی ہو 

(اس طرح کی باتیں وہ عموما بو لتے ہیں )پھر انہوں بڑی تعریف کی اور آگے جگہ بنا کر بٹھایا اور کہا روز یہیں بیٹھنا سب کےکلاس سے جانے کے بعد سمجھایا بھی کہ بڑی اچھی بچی ہو اب ایسا مت کرنا پھر وہ کرسی اور میں روز موجود ہوتے نوبت یہ آگئی کبھی کبھی سر کو بولنا پڑتا کہ کسی اور کو بھی موقع دو بتانے کاپھر چوتھے سمسٹر میں  ایک دن سر حسب معمول سب کی حاضری دیکھ رہے تھے تو مجھ سے کہا کہ کبھی چھٹی بھی کرلیا کرو مجھے پہلے سمسٹر کا وہ دن آگیا شاید سر تو کب کا بھول گئے تھے لیکن میں اکثر سوچتی ہوں اس دن اگر ایسا نہیں ہوتا تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی 

کبھی کبھی اساتذہ کا ایک جملہ آپ کی پوری زندگی کےلئے کافی ہوتا ہے۔

سوال نمبر 6-کون سے انشاء پرداز کو پسند کرتی ہیں؟

جواب :مجھے ترتیب وار یعنی ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی  پسند ہے لیکن اگر مجموعی طور پر بات کروں تو ابن انشا،مشفق خواجہ ، مشتاق احمد یوسفی اور مجتبیٰ حسین وغیرہ زیادہ پسند ہیں ان کے علاوہ کئ نام لئے جا سکتے ہیں باقی کچھ انشائیہ نگار کی کوئی خاص یا کچھہ خاص چیزیں پسند آجاتی ہیں ۔

سوال نمبر 7۔اور کیوں پسند کرتی ہیں؟

جواب:پسند کرنے کی کوئی ایک خاص وجہ نہیں ہے

جو نام میں نے لئے ہیں وہ گنے چنے ایسےنام ہیں کہ جب جب اس حوالےسے بات ہوگی ان پر گفتگو ہوگی اور ظاہر ہے کہ سب بڑے نام ہیں اور ان سب کی منفرد خصوصیات ہیں جن پر کافی لمبی گفتگو ہوسکتی ہے

سوال نمبر 8-اپنے ہم عصر انشاء پردازوں میں کس کو پسند کرتی ہیں؟

جواب:معاصرین میں کئی اچھے لکھنے والے ہیں لیکن کوئی خاص کتاب یا کچھ خاص حصہ پسند آیا 

پڑھنے میں کنجوسی نہیں کرتی جو جہاں دیکھا پڑھ لیا کیونکہ اس سے فائدہ نہ ہو تو نقصان بھی نہیں ہے 

کچھ نہ کچھ نیا مل ہی جاتا ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ  یہ مکمل تخلیق کار پر منحصر ہے کہ وہ کتنی دیر تک قاری کی توجہ حاصل کرتا ہے اور اس کی دلچسپی کا سامان بنائے رکھتا ہے آج کی مصروفیت بھری زندگی میں خود کو پڑھوا لینا بھی کسی کمال سےکم نہیں ہے۔

سوال نمبر 9-انشائیہ کے علاوہ کسی اور صنف ادب پر قلم اٹھایا؟

جواب:انشائیہ کے علاوہ کچھ خاکے ہیں اور آئیندہ بھی آئیں گے

افسانچہ بھی ہیں ابتدا میں کچھ نظمیں بھی لکھیں 

اور اب بھی کبھی کبھی ہو جاتی ہیں انشائیہ کا جہاں تک سوال ہے انشائیہ کو ام الاصناف کہا گیا کہ دنیا میں جس زبان میں بھی کوئی ادب تخلیق ہو خواہ نظم کی صورت میں ہو یا نثر کی صورت میں، اس کی ابتدا انشائیہ سے ہی ہوتی ہے یہ بحث کافی غور طلب ہے۔

سوال نمبر 10-اپنا پسندیدہ کلام (شاعری میں)سنائیے؟

جواب:کلام کے سلسلے میں اگر پسند کی بات کریں تو وہ وقت کےساتھ ساتھ بلکہ میں یہ کہوں روز بہ روز تبدیل ہو جاتی ہے اس کو اور مختصر کرکے بھی دیکھا جاسکتا ہے 

آپ کس وقت کس طر ح کے موڈ میں ہو یعنی جذبات کے ساتھ بھی تبدیلی آتی ہے 

کبھی کبھی کوئی شعر کسی خاص موقع محل کے عین موافق ہوتا ہے تو وہ سب سے پرفیکٹ ہوتا ہے 

حالانکہ یہ لازمی نہیں کہ وہ نہایت اعلی درجے کا ہے

فی الحال ایک غزل 


اس نے بیکار یہ بہروپ بنایا ہوا ہے 

ہم نے جادو کا اک آئینہ لگایا ہوا ہے 


دو جگہ رہتے ہیں ہم ایک تو یہ شہر ملال 

ایک وہ شہر جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے 


رات اور اتنی مسلسل کسی دیوانے نے 

صبح روکی ہوئی ہے چاند چرایا ہوا ہے 


عشق سے بھی کسی دن معرکہ فیصل ہو جائے 

اس نے مدت سے بہت حشر بپایا ہوا ہے 


لغزشیں کون سنبھالے کہ محبت میں یہاں 

ہم نے پہلے بھی بہت بوجھ اٹھایا ہوا ہے 


بانوئے شہر ہمیں تجھ سے ندامت ہے بہت 

ایک دل ہے جو کسی اور پہ آیا ہوا ہے


عرفان صدیقی

سوال نمبر 11-اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ بیان کریں؟

جواب:بہت سارے واقعات ہیں بلکہ واقعات ہی واقعات ہیں اور جہاں تک سوال ہے دلچسپ کی تو نہ بھی ہوں تو میں ان میں مرچ مسالا لگا کر دلچسپ بنانا ہی شیوہ ہےیہی واقعات میرے انشائیوں میں موجود ہیں 

کوئی واقعہ سنانے لگی تو مشکل سے ہی سلسلہ ختم ہوگا  بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔

سوال نمبر 12-کوئی ایسی شخصیت جس سے ملنے کی خواہش ہو؟

جواب:اس سوال سے مجھے خوف آتا ہے 

خدا گواہ ہے کہ آج تک جس جس سے ملنے کی خواہش ہوئی وہ معبود حقیقی سے جاملے اس میں کیا مصلحت ہے واللہ اعلم!

سوال نمبر 13۔پاکستان اور ہندوستان کے انشاءپردازوں میں کیا چیز مشترک نظر آتی ہے؟

جواب:میرے خیال میں کسی  بھی صنف کے لکھنے والوں میں اس صنف کے خدو خال اور اجزائے تر کیبی کے علاوہ کچھ مشترک نہیں ہوتا ہر کسی کی اپنی تکنیک اپنا طرز اپنا اسلوب ہوتا ہے ہم اس کو انفرادیت بھی بولتے ہیں ۔

انشائیہ لکھنے والوں میں بھی خواہ وہ پاکستان کے ہوں یا ہندوستان کے اجزائے ترکیبی اور پریشان خیالی وغیرہ مشترک ہیں اس کے علاوہ سب کی منفرد خصوصیات ہیں جس سے ان کی شناخت ممکن ہے۔

انشائیہ ہی کیا آپ شاعری کی مثال لے لیجیے مومن،ذوق اور غالب ایک ہی زمانے کی پیداوار ہیں ایک ہی ماحول اور وقت کے باوجود کسی ایک مضمون کو بالکل الگ الگ طرز سے باندھیں گے اگر تینوں کے اشعار سامنے ہوں تو ہم انفرادی خصوصیات کی بنا پر الگ کرتے ہیں کہ یہ غالب کا نہیں ہوسکتا یا یہ مومن ہی کہ سکتے ہیں وغیرہ

اسی طرح انشائیہ نگاروں کی بھی پہچان ممکن ہے۔

سوال نمبر 14۔آپ نے انشائیہ ہی کا انتخاب کیوں کیا؟

جواب :انورمسعود صاحب اکثر کہا کرتے ہیں مزاح مزاج ہوتا ہے جیسا کہ ذکر آیا مجھے بچپن سے ہی باتیں بنانے کا،بات سے بات پیدا کرنا اچھا لگتا تھا،اور یہ چیز میرے والد محترم میں بھی ہے ان کے والد صاحب میں بھی تھی۔میرے والد صاحب دوپہر کو بچوں کو کہانی سنا کر سلایا کرتے تھے ۔ یہ کہانی کبھی ختم ہی نہیں ہوتی تھی۔جہاں سے ختم ہوئی وہاں سے اگلے روز شروع کرتے تھے ۔پھر وہ اکثر مجھے دلچسپ قصے بھی سنایا کرتے تھےاسی ماحول میں میری پرورش ہوئی میں ہاسٹل گئی تو میں بھی وقت گزاری کے لئے دوستوں کو کہانیاں سنانے لگی پھر خالی وقت میں دوسرے کلاس کے بچے بھی کہانی سننے آنے لگے۔لیکن انشائیہ نگار کا کام صرف کہانی یاقصہ سنانا نہیں بلکہ نکتہ آفرینی ہے ،اس کے لئے وہ کیا وسیلہ اختیار کر تا ہے اور اس میں کتنی مہارت رکھتا ہے یہ اہم ہے۔

سوال نمبر 15۔آپ کے خیال میں آپ کی انشائیوں میں کیا انفرادیت ہے؟

جواب:جیسا کہ میں نے بتایا کہ میرے انشائیوں میں میرے ساتھ رونما ہونے والے واقعات موجود ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ تخلیق کار کی تخلیق میں اس کے ماحول کا نمایاں کردار ہوتا ہے وہ زیادہ تر وہی لکھتا ہے جو اس کے ذہن میں کسی بھی طرح موجود ہے پھر اس میں وہ تخیل سے کیا کیا اضافہ کرتا ہے وہ الگ بحث ہےجارج مانتین نے اپنے انشائیوں کی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ:اس کتاب کا موضوع میں خود ہوں۔ یہی بات کلیم الدین احمد کی تعریف میں بھی سنائی دیتی ہے جب وہ کہتے ہیں کہ انشائیہ نگار کا اصل موضوع اس کی ذات اور اس کی آزادی ہے۔ گویا ان کے نزدیک اظہارِ ذات کو انشائیہ میں مرکزیت حاصل ہے اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا گیا:

انشائیے ایک ذہین، رنگین مزاج، ترقّی پسند اور روایت شکن فنکار کے جذبات اور احساسات کا پر تو ہی ہوتے ہیں۔ ایک انشائیہ میں لکھنے والے کے ان دبے ہوئے جذبات کا اظہار ہو تا ہے جن کی راہ میں اس کے عہد کی عکاسی ہوتی ہے۔ تخلیق کار کے انفرادی نظریات اور ذہنی کشمکش اظہار کے ذرائع ڈھونڈتی ہے۔ ادیب اس اظہار کے لئے زبان اور تحریر کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن اصنافِ ادب میں بھی جو تحریریں انشائیہ نگار کے لئے معنی خیز خیالات کی حامل ہو تی ہیں اپنے مواد، ہیئت اور اندازِ بیان کی وجہ سے دوسری تحریروں سے منفرد ہو تی ہیں۔جیسا کہ یہ بات اس سے ما قبل بھی آئیکہنے کا مطلب ہے کہ زیادہ تر واقعات سچےہیں باقی اشعار کی تعداد ان میں زیادہ ہوتی ہے بقیہ انفرادیت کی تلاش قارئین کے ذمہ سونپتی ہوں۔

(افشاں سحر)

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

if you want to ask something feel free to ask.