شور مچاتی دھڑکنوں کا قصہ.
مصنف: ایڈگر ایلن پو
اردو ترجمہ نگار توقیر بُھملہ
دوسرا اور آخری حصہ
ابھی تک میں دم سادھے خود کو باز رکھے ہوئے تھا. بغیر آواز کے بمشکل سانس لیتا ہوا، اور بغیر کسی حرکت کے میں لالٹین تھامے ہوئے تھا. بڑی تگ ودو کے بعد اس ننھی شعاع کو ایک جگہ مستقل رکھنے میں کامیاب ہوا ہی تھا، کہ اسی وقت یکلخت اس کی دھڑکنوں کے طبل کی تھاپ سرعت کے ساتھ تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی. بوڑھے شخص کا خوف اب یقیناً آخری حدوں کو چھو رہا تھا. کیونکہ یہ آواز اب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بلند سے بلند ترین ہوتی جارہی تھی.
کیا تم نے اس بات کو اچھی طرح جانچ لیا ہے کہ میں اسوقت انتہائی زیادہ گھبراہٹ کا شکار تھا؟
ہاں یقیناً میں گھبرایا ہوا تھا. پرانے مکان میں رات کے اس آخری پہر موت کی ساعتوں اور موت کے سناٹے میں وہ عجیب سا شور میری بے قابو ہوتی ہوئی وحشت کو بڑھا رہا تھا. لیکن ابھی بھی میں مزید کچھ وقت اپنے ارادے سے باز بس ساکت کھڑا رہا. لیکن وہ دھڑکن تھی کہ بڑھتی ہی چلی جارہی تھی، میں نے سوچا کہ اب تو دل کو پھٹ جانا چاہئے تھا. اب ایک نئے اضطراب نے مجھے آن گھیرا تھا، ہوسکتا ہے کہ یہ دھڑکنوں کا بلند شور پڑوسی بھی سن رہے ہوں؟
پھر آخر کار اس بوڑھے شخص کا آخری وقت آن پہنچا تھا، ایک بلند چیخ کے ساتھ میں نے لالٹین کو پورا روشن کرتے ہوئے کمرے کے اندر چھلانگ لگا دی، دہشت کے مارے وہ ایک بار چیخا، بس ایک بار، انتہائی پھرتی کے ساتھ میں نے اسے فرش پر گھسیٹا اور اس کے اوپر اسکا وزنی بیڈ کھیبچ کر گرا دیا، میں خوشی کے ساتھ مسکرانے لگا کہ بالآخر یہ فعل احسن طریقے سے انجام کو پہنچا. لیکن، کچھ وقت گزرنے کے بعد بھی وہی دل کی دھڑکن دبی دبی سی گونجتی رہی، لیکن،تاہم، مجھے اب اس سے کوئی پریشانی نہیں تھی، کیوں کہ دیواروں کے پار سننے کی گنجائش نہیں تھی، اور یہ معدوم ہوتی آواز اس کمرے تک ہی محدود تھی..
بوڑھا شخص اب مر چکا تھا. میں نے وزنی بیڈ کو پرے دھکیلا، لاش کا معائنہ کیا، اور ہاں وہ بالکل مردہ تھا کسی پتھر کی مانند بےجان، میں نے اپنا ہاتھ اس کے دل کے مقام پر رکھا، اور کچھ پل وہیں رکھ کر دیکھتا رہا، وہاں اب دھڑکن نام کی کوئی شے باقی نہیں تھی، وہ پوری طرح مر چکا تھا.
اگر تم اب بھی میرے بارے میں یہی گمان رکھتے ہو کہ میں ایک پاگل شخص ہوں، تو جب تم سنو گے کہ کیسے دانشمندانہ احتیاط سے میں نے اس لاش کو ٹھکانے لگایا تھا، تو تمھارا یہ گمان زیادہ دیر قائم نہیں رہے گا.. رات گزر چکی تھی اور میں عجلت سے مگر خاموش رہ کر اپنا کام نمٹا رہا تھا.
سب سے پہلے تو میں نے لاش کو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا، پہلے میں نے سر کاٹا، پھر بازو اور ٹانگیں کاٹ کر الگ کیں،، اس کے بعد میں نے اسی خوابگاہ کے فرش پر سے تین لکڑی کے تختے اکھاڑے، لاش کے ٹکڑوں کو سمیٹ کر تختوں کے نیچے نمودار ہونے والے خلا میں پھینکا، اور بڑی ہوشیاری سے، بڑے ہی ماہرانہ انداز سے، ان تختوں کو دوبارہ اس طرح جوڑ دیا کہ کوئی انسانی آنکھ وہاں ذرہ برابر بھی گڑبڑ کا اندازہ نہیں لگاسکتی تھی، حتیٰ کہ وہ گدھ کی آنکھ بھی. وہاں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جسے دھونے کی ضرورت پڑتی، نہ ہی کسی قسم کا کوئی داغ، نہ ہی خون کے دھبے یا جو بھی ہو، میں شروع سے ہی ہر چیز کے متعلق بےحد محتاط رہا تھا،اس لیے سارا کام میں نے ایک بہت بڑے ٹب کے اندر سر انجام دیا تھا، ہاہاہا.
میں جب اس تمام مشقت سے فارغ ہوا تو چار بج چکے تھے، لیکن اندھیرا ایسے ہی تھا جیسے نصف شب کا وقت ہو. گھڑی میں جیسے ہی گھنٹہ پورے ہونے کا الارم گونجا، تو گلی والے دروازے پر دستک ہونے لگی، میں ہلکے پھلکے مطمئن دل کے ساتھ نیچے دروازہ کھولنے چلا گیا، اب یہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جو مجھے خوفزدہ کرتا.
وہاں تین افراد تھے، جنہوں نے بڑے مہذب اور شائستہ انداز سے اپنا تعارف کروایا کہ، وہ محکمہ پولیس کے افسران ہیں. ہمارے ہمسائے نے انہیں اطلاع دی تھی کہ، اس نے رات ایک چیخ کی آواز سنی تھی اور اسے شک ہے کہ یہ کسی مجرمانہ کارروائی کے دوران بلند ہونے والی دہشت ذدہ چیخ جیسی تھی. تھانے میں اسی اطلاع کو درج کرکے کارروائی کا فیصلہ کیا گیا، اور انہی افسران کو گھر کی تلاشی لینے کے لیے بھیجا گیا تھا. میں مسکرا دیا، کیوں کہ میرے پاس خوفزدہ ہونے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا. میں نے ان افسران کا خوشدلی سے استقبال کیا، وہ چیخ، میں نے بتایا کہ دراصل وہ میری ہی چیخ تھی جو نیند کے دوران ایک ڈراؤنے خواب کا نتیجہ تھی.
میں نے اس بوڑھے شخص کا ذکر کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ وہ قصبے سے باہر گیا ہوا ہے.
میں نے ان تلاشی لینے والوں کو پورا گھر دکھایا. میں نے انہیں کہا کہ وہ ضرور تلاشی لیں اور اچھی طرح تلاش کریں.
میں انہیں اس خوابگاہ تک لے گیا، بوڑھے شخص کا تمام خزانہ انہیں دکھایا کہ دیکھو، یہ بالکل محفوظ ہے، اسے کسی نے چھیڑا تک نہیں.
اپنے اعتماد کے جوش و خروش میں، ان کے بیٹھنے کے لیے کمرے میں کرسیاں لے آیا، اور انہیں پیشکش کی کہ وہ یہاں بیٹھ کر کچھ دیر آرام کرلیں، جبکہ میں بذات خود، جنگلی وحشت کے زیر اثر، جو اپنی شاندار جیت کے نشے میں سرشار تھا، اپنی کرسی عین اس مقام پر رکھ دی جس کے نیچے مقتول کی لاش ابدی نیند سو رہی تھی.
افسران مکمل مطمئن ہوچکے تھے، میرے زبردست اسلوب سے وہ قائل ہوچکے تھے، اس وقت میں اکیلا شخص تھا جو بالکل پرسکون تھا، وہ بیٹھ گئے، جب میں خوشی خوشی تمام پوچھے گئے سوالات کے جوابات دے رہا تھا، وہ معمول کے مطابق چند جانے پہچانے سوالات پوچھ رہے تھے، لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، میرا رنگ پھیکا پڑتا جارہا تھا، میری خواہش تھی کہ وہ اب چلے جائیں، میرا سر دکھنے لگا تھا، اور یوں لگنے لگا جیسے کوئی گھنٹی کانوں میں بجنے لگی ہے ، لیکن وہ ابھی تک ادھر ہی بیٹھے بات چیت کرتے رہے، گھنٹی کی آواز اب بالکل صاف سنائی دینے لگی تھی، یہ مسلسل بجتے ہوئے اب مجھ پر واضح ہوتی جارہی تھی. میں ان کے ساتھ مزید کھل کر بات چیت کرنے لگا تھا، تاکہ میں اس نئی مصیبت سے جان چھڑا سکوں. جب یہ طویل آواز مسلسل بغیر وقفے کے بجتی ہی گئی، تو مجھے پتا چلا کہ، یہ تو میرے کانوں میں نہیں بلکہ کہیں اور گونج رہی تھی. بلاشبہ میرا وجود پھیکا پڑ گیا تھا، لیکن باوجود اس کے میں نے پہلے سے زیادہ روانی سے اور قدرے اونچی آواز میں بولنا جاری رکھا. وہ آواز تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی، اور مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں اس وقت کیا کرتا؟
یہ ایک دھیمی ،پھیکی سی غیر دلچسپ مگر تیز آواز تھی، بالکل ایسی ہی جیسے روئی کے گولے میں لپٹی ہوئی گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز ہو، میں نے ایک تھکی ہوئی سانس خارج کی، جس کی آواز ان افسران کے کانوں تک نہ پہنچ سکی. پوری قوت کے ساتھ چوکس رہتے ہوئے میں نے تیزی سے گفتگو کو جاری رکھا. لیکن وہ آواز ہردم بڑھتی جارہی تھی. میں کھڑا ہوگیا اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کے متعلق بحث کرنے لگا. جارحانہ انداز سے میں نے اپنی باتوں کو نمایاں طور پر پیش کیا، لیکن وہ آواز بتدریج بڑھتی رہی. یہ آفیسر ابھی تک گئے کیوں نہیں؟ میں نے فرش پر بھاری قدموں کے ساتھ یہاں وہاں چکر لگانا شروع کردیا ، جیسے میں ان کی کھوجتی ہوئی نگاہوں سے مشتعل ہورہا ہوں، مگر وہ آواز تو جیسے لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جاتی تھی. یا خدایا! میں کیا کروں؟ میرے منہ سے جھاگ نکلنے لگی، میں خبطی ہوگیا اور قسمیں کھانے لگا، میں کرسی پر بیٹھ کر جھولنے لگا اور انہی لکڑی کے تختوں پر اسے ٹکرانے لگا، لیکن وہ آواز اب ہر جگہ تیزی سے بڑھتے ہوئے گونجنے لگی.
یہ زور سے بڑھتی رہی، اور زور سے، اور زیاد زور سے!
مگر وہ افسران جیسے خوشگوار موڈ میں مسکراتے ہوئے گپ شپ کرتے رہے. ہوسکتا ہے انہیں یہ آواز سنائی ہی نہ دی ہو؟ کیا یہ ایسا ممکن ہے؟.
یا خدایا! نہیں نہیں! انہوں نے بخوبی سنی ہوگی، بس وہ شک میں ہیں، یا وہ یہ سب جانتے ہیں، اور اب میرے خوف کا ٹھٹھول اڑا رہے ہیں..
یہ سب میرے خیالات تھے اور یہی میں سوچتا رہا تھا.
لیکن اس المناک صورتحال سے بڑھ کر کچھ اور تھا جو بہتر تھا،
میرے اس کیے گئے فعل سے بڑھ کر کچھ اور تھا جو قابلِ برداشت تھا!
میں اب ان کی وہ استہزایہ ہنسی مزید برداشت نہیں کرسکتا تھا!
مجھے ایسے لگا جیسے مجھے چیخنا چلانا چاہیے یا پھر مرجانا ہی بہتر ہے!
اور پھر دوبارہ وہی،، آواز! تیز! ،اور تیز! ،اور تیز! ،اور تیز!
تم بدمعاشو! میں ان پر چیخا، اب مزید برداشت نہیں، میں اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہوں.
ان تختوں کو اکھاڑ ڈالو، یہاں، بالکل یہاں سے!...
یہ آواز اس کے کریہہ دل کی دھڑکن ہے....
ختم شد.......
( مترجم کا نوٹ : ہر جرم کا ایک احساسِ جرم اور ہر مجرم کا ایک پچھتاوا ضرور ہوتا ہے جو اس وقت تک تعاقب میں رہتا ہے جب تک مجرم اعتراف جرم کرکے سزا نہ پالے،
ضمیر کی آواز ہر زندہ انسان ضرور سنتا رہتا ہے اس کو کچھ وقت کے لیے دبا تو سکتا ہے مگر خاموش نہیں کرا سکتا.
جرم سے نفرت کیجئیے، ضمیر کی آواز سنتے رہیے، سماج کو بہتر بنانے میں اپنا اچھا کردار ادا کیجئے۔ توقیر بُھملہ
0 تبصرے
if you want to ask something feel free to ask.