Ads

داستان گمنام مجاہدوں کی 1

 

داستان گمنام مجاہدوں کی

تحریر:توقیر بھملہ

انتخاب و پیشکش:افشاں سحر



قسط نمبر 1..

السلام علیکم! امید ہے سب خیریت سے ہونگے، تمام پڑھنے لکھنے والے دوست و احباب کیلئے اپنی ایک زیر تحریر و تالیف کتاب سے چند صفحات نذر کرنا چاہوں گا. التماس ہے وقت نکال کر ضرور پڑھیے گا. یہ میرے گمنام سپر ہیروز کی داستان ہے جن کے کارنامے آپ مدتوں یاد رکھیں گے. 


شجاعت اور عزم و ہمت کی ناقابل یقین داستان میرے وطن کے ان گمنام مجاہدوں کے نام جو بے نام رہ گئے تھے. 


یہ غازی، یہ تیرے پُر اسرار بندے

جنھیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی

دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

. نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی


یہ قصہ ان چند بہادر نوجوانوں کا ہے جنہوں نے اندھی موت سے کئی گھنٹوں کی طویل چومکھی اور اعصاب شکن جنگ کے بعد یقینی موت کو شکست دی، نہ صرف خود کو بلکہ موت کے خون آشام جبڑوں سے کئی اور زندگیاں بھی چھین کر بچانے میں کامیاب ہوگئے. 

یہ قصہ ایک سچے واقعہ پر مبنی ہے جس کے کردار الحمدلله حیات ہیں. ان کرداروں کی یادداشت اس واقعے کو ذہن سے صفحہ پر اتارنے کا سبب اور معاون بنی۔

سمندر کے بیچوں بیچ جزیرے پر ابھری ہوئی بھوری چٹان کو دور سے دیکھنے پر یوں گمان ہوتا تھا، جیسے پانی کو خاک کا پیوند لگا ہو، اور اس پیوند خاک پر سامان سے لدا ہوا تین کوہانوں والا ایک دیو قامت اونٹ 🐫 تھک کر گردن جھکائے بیٹھا ہو. ایک کوہان پر آسمان سے باتیں کرتا سرخ اینٹوں سے بنا سفید روشنی کا ایک مینار ایستادہ تھا جو بغیر کوئی گلہ شکوہ کیے صدیوں سے تاریک سمندر میں بحری جہازوں کو رستہ دکھاتا رہتا تھا، دوسری کوہان پر چٹان کو کسی ماہر سنگتراش نے خوبصورتی سے تراش خراش کر بیٹھنے کے قابل بنا دیا تھا، جہاں میرے جیسے آوارہ گرد اور مہاجر سفید پرندوں کا بھی مسکن تھا، جو لاکھوں میل دور سے ہجرت کر کے فقط ہماری وحشت کی خوراک بننے آتے ، یہاں پر ہی سنگی بنچی‍ں تھیں جن پر بیٹھ کر پوری دنیا سامنے بکھرتی ڈوبتی ابھرتی دکھائی دیتی، یہ ایک طرح کا ہمارا ٹی ہاؤس تھا جہاں ہم بیٹھ کر دنیائی فکروں سے چند لمحوں کیلئے چشم پوشی کرتے. یہاں جدید حیات اور قدیم موت کے آثار ایک دوسرے میں باہم پیوست ہوکر زندگی گزارنے پر مامور تھے. اسی معمول اور گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ لگی بندھی زندگی میں کبھی کبھار ہلچل بھی ہوتی تھی، کبھی ہجوم کی یلغار سے گھبرا کر تاریک غاروں میں پناہ لیتے لیکن پھر بھی وحشت ہر جگہ نئے روپ دھار کر حملہ آور ہوتی. یوں ہی ہنگامہ زیست میں ایک دن موسم انتہا کا سرد اور بے رخی پر اترا ہوا تھا، ذرہ بھر دھوپ بھی میسر نہ تھی جس سے وجود کی کوئی پور ہی زندگی کا نشان بتلاتی. میں سفید آزاد پرندوں کے ساتھ بیٹھا اس دنیا کو دیکھ اور سوچ رہا تھا کہ، اگر دل و دماغ یکجا ہوں تو ایک خاص ترتیب سے بکھری بےترتیب دنیا کا حسن بھی قیامت خیز ہوسکتا ہے . سمندر کے سینے پر آمنے سامنے دو ابھری ہوئی پہاڑیوں اور ان گنت پوشیدہ چٹانوں کے درمیان یہاں دنیا بھر کے بحری جہازوں کی آبی گزرگاہ بھی ہے یہاں سمندری پائلٹ بے حد احتیاط سے چلتے ہیں ذرا سا بھی اسٹیرنگ سے دھیان ہٹا نہیں اور جہاز کسی پوشیدہ چٹان کے آہنی سینگوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتا ہے، میرے سامنے یونانی جہاز تسمان اسپرٹ منٹوں میں غرقاب ہوگیا تھا، اور ساتھ ہی کروڑوں سمندری حیات کا صفایا کرگیا تھا.

 یہ دسمبر کا اوائل تھا، غضب کی سرد ہوا تھی، اور تسلی سے ٹھٹھرنے کے سوا کوئی خاص مشغلہ بھی نہیں تھا، میں اپنے سامنے دیکھ رہا تھا کہ، جہازوں کے نتھنوں سے پھوٹتے ہوئے رسوں کے ساتھ بندھے ہوئے لنگر یوں جھولتے تھے جیسے کئی جن ان پر بیٹھ کر جھولے کر رہے ہوں، سینکڑوں غلط ملط سوچوں میں الجھا ہوا تھا کہ پیامبر آپہنچا، ایک خط تھا، جس میں اتنا لکھا تھا "ٹیم تیار کرو متعلقہ ضروری سازو سامان باندھ لو منہ ول کالے پانیوں کو کر لو" ، یا حیرت کہاں دھوپ کے متلاشی کو یخ برف زاروں کی طرف جانے کا حکم دے دیا گیا.

دونوں ممالک کی حکومتوں جن میں اسلام آباد کا سروے آف پاکستان اور دہلی کا سروے آف ہندوستان اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ دونوں ممالک مل کر کشمیر کے بعد دوسرے متنازعہ علاقے اور سمندری حدود "سر کریک" کا بلاتاخیر سروے کرنا چاہتے ہیں، سروے آف پاکستان کی معاونت اور حفاظت کا ہما ہمارے سر پر آکر بیٹھ گیا اور یوں ہم ملا کی اذان سے مجاھد کی اذان بننے کی طرف چل دیئے . سر کریک ہمارا تاحال دوسرا بڑا کور ایشو ہے جہاں جانے کیلئے کمربستہ ہونا شروع ہوگئے، آنا فانا سامانِ ہجرت باندھا ٹیم تو ہمہ وقت تیار تھی، یوں ٹھٹھہ کی ساحلی پٹیوں کی طرف عازم سفر ہوگئے. (جاری ہے )



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے