زبان سے متعلق نظریات
تحریروتحقیق : ڈاکٹر فدا حسین انصاری
زبان سے متعلق نظریات
کئی صدیوں سے اس کے بارے میں تحقیق ہوتی رہی کہ زبان کی ابتداء کیسے اور کیوں کر ہوئی لیکن حتمی طور پر اس کے بارے میں اب تک کوئی ایک نظریہ قائم نہیں ہو سکا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ آدم اور ابن آدم جب اس دنیا میں آئے اور معاشرے میں اضافہ ہوتا گیا تو یقیناً کسی نہ کسی انداز میں زبان کی ابتدا ہوئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے کسی زبان کو قطعی طور پر اختیار کرنے کا حکم ہیں ہو اور نہ ہم سب کی زبان ایک ہی ہوتی اس معاشرے میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ پرندے، جانور اور حشرات الأرض ان سب سے بھی انسان نے ضرور کچھ نہ کچھ سیکھا ہوگا ۔
ربان تحفہ الٰہی یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کو کسی زبان کے لیے بولنے یا لکھنے کا حکم ہیں ہوا لیکن انسان کو الله تعالٰی سے یہ قوت ضروردی کہ وہ زبانوں کو اختیار کر کے لہذا اس سلسلے میں بعض مذاہب کے لوگوں نے اپنے اپنے طور پر یہ کہا زبان کا منبع پالی زبان ہے کسی نے ویدک کو دیو بانی زبان سے منسوب کیا کسی نے سنسکرت اور کسی نے عربی، فارسی، عبرانی ، چینی لاطینی سے منسوب کرکے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہماری زبان زیادہ مستند ہے۔ آپ غور کیجۓ کہ یہ نظریہ زبان کی تعریف کے تحت مکمل طور پر یہ ثابت نہیں کرتا کہ زبان اس شکل میں تحفہ الہی ہے جس شکل میں اسے بیان کیا گیا ہے کیونکہ ہم پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے زبان ایجاد کرے اور اس میں تبدیلی کرے کی قوت عطا کی ہے۔
زبان مجموعہ جذبات واحساسات
بعض لوگوں کا خبال کہ انسان خوشی اور غم ،مسرت و آلام کے تحت جن جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے ذریعے ہی زبان وجود میں آئی اس کے لیے بعض مرتبہ خوشی اور عم کے اظہار میں ایسے انداز بھی شامل ہو سکتے ہیں جو حد سے تجاوز کر کے اپنے خیالات کے اظہار میں مالغ ہو سکتے ہیں ہم یہ کہ سلسلے ہیں کہ یہ نظریہ بھی قابل تنقید ہے۔
زبان ماحصل نقل وتقليد
ابتدا میں یہ د کر کیا گیا تھا کہ اللہ تعالٰی نے آدم کو اشیاء کے نام سکھائے بعض کا خیال یہ ہے کہ اس نے خود اپنے طور پر ان اشیاء کے نام رکھے لیکن اس نظریے کے تحت یہ کہا جاسکتا ہے کہ جیسے مختلف پرندوں کی آوارین ان پرندوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف پرندوں اور جانوروں کو دیکھ کر ان کی آواروں کو سن کر ان کے نام رکھے گئے جیسے کائیں کائیں کی آواز سے کو کہا گیا میوؤں میوؤں کی آواز سے مانو بلی کہ کربکی کا نام لیا گیا ۔
یو ہو کا نظریہ
اس کے مطابق جفاکشی اور محنت کش لوگوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ جب کنت کا کام کرتے ہیں تو ان کی رگوں کا بھولنا اور پھیپڑوں سے آواز کا پیدا ہونا اُسی وقت سے مختلف آوازوں کے سہارے زبان کی ابتدا ہوئی لیکن یو ہو نے خود اس بات سے انکار کر دیا اور یہ نظریہ بھی قابل قبول نہیں رہا۔
ڈنگ ڈونگ کا نظریہ:
اس کے مطابق مختلف دھاتوں سے پیدا ہونے والی آوازوں سے زبان کی ابتدا ہوئی آپ لوہا، پیتل، تانبا یا کوئی ایسی بھاری اشیاء پتھر وغیرہ دور سے زمین پر پھینک کر دیکھیں تو ان کی آوازوں میں فرق ہوگا مختلف قدر وقیمت کے سکے زمین پر گرتے ہی پہچان لیے جاتے ہیں کہ یہ کسی قدر کایا قیمت کا سکہ ہے لیکن اس نظریے سے بھی ہمیں ربان کے بارے میں پوری معلومات حاصل ہیں ہوتیں ۔
اشارات و کنایات کا نظریہ
اشارات و کنایات کے نظریے کے بارے میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ انسانی معاشرہ جب اپنی تعمیر کر رہا تھا اور اس میں اضافہ ہوتا جاتا تھا تو انسان نے سب سے پہلے اشارات و کنایات کے ذریعے اپنی بات پہچانے کی کوشش کی ہو گی اور پھر یہ اشارے اور کنا ہے آوازوں کے ذریعے مزید مستحکم ہوئے ہوں گے لہذا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ابتدائی طور پر ایسا ہوا ہوگا لیکن آج بھی بعض اشاروں کنایوں کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے
- اب ہم اپنے معاشرے پر غور کریں تو ہمارے سامے زبان کے بارے میں یہ چند باتیں اور بھی آتی ہیں کہ سب سے پہلے تو انبیاء کرام اور دیگر نیک اور صالح افراد کی جب پیروی کی گئی تو جو کچھ وہ مقدس ہستیاں اپنی زبان سے کہتی تھیں ان کی پیروی میں وہی الفاظ ادا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی لہذا ربان اور الفاظ میں اضافہ ہوتا جاتا تھا ۔
- اسی طرح تجارت پیشہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو لین دین کرے والوں کی زبامیں آپس میں اس طرح مل جاتی ہیں کہ ایک دوسرے کے الفاط انہیں بعض مرتبہ کلی طور پر انھیں اپنانا پڑتا ہے اس طرح زبان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
- آج کل دنیا سمٹ کر ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو گئی ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک جانے والے زبانوں کے تبادلے میں ایک دوسرے کے الفاظ اپنالیتے ہیں اور اس طرح زبان میں اضافہ ہوتا ہے اور ترقی ہوتی ہے۔
- مختلف ممالک کے مختلف نصاب ہونے کی وجہ سے نصابی کام کرنے والے یا تعلیم حاصل کرنے والے اُس نصاب کو سیکھنے اور استفادہ کرے کی کوشش کرتے ہیں تو بھی زبان اور لفظیات میں اضافہ ہوتا ہے اور زبان ترقی کرتی ہے۔
- زبانوں کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے الفاظ پر انے ہو جاتے ہیں انہی ہم لباس کی طرح تبدیل کر لیتے ہیں اور زبان میں لئے نئے الفاظ شامل ہوتے ہیں ایک طرف توربان تو بدلے رہتے ہیں بلکہ اگر آپ غور کریں تو آج سے پانچ سوبرس پہلے کی زبان خواہ وہ کوئی بھی ہو یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔
تحریروتحقیق : ڈاکٹر فدا حسین انصاری
انتخاب و پیشکش : افشاں سحر
0 تبصرے
if you want to ask something feel free to ask.