google.com, pub-3592151194176271, DIRECT, f08c47fec0942fa0 کچھ یوسفی صاحب کی یاد میں،اردو ادب

follow us

کچھ یوسفی صاحب کی یاد میں،اردو ادب

 



کچھ یوسفی صاحب کی یاد میں:

اردو ادب

مشتاق احمد یوسفیی راجستھان میں 4 ستمبر 1923 کو پیدا ہوئے  ان کا آبائی وطن جے پور تھا

 ان کے والد صاحب عبدالکریم خان یوسفی ایک اسکول میں استاد،جے پور لیجسلیٹو اسمبلی کے ڈپٹی سیکریٹری اور ٹونک میں پولیٹیکل سیکریٹری رہ چکے تھے ۔ددھیال سے یوسفزئی پٹھان جبکہ ننھیال سے راجپوت تھے  یو سفی صاحب کی والدہ مسعود جہاں کا تعلق اجمیر شریف کے علاقے بیاور سے تھا یوسفی صاحب کے نانا احمد بخش راٹھور پولیس انسپکٹر تھے مجھے یو سفی صاحب کی مادری زبان مارواڑی تھی انھیں خط کی مشق ان کے نانا نے کروائی۔علی گڑھ یونیورسٹی سے فلسفے میں اول پوزیشن میں ایم اے کیا فلسفے میں ان کے اساتذہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن اور ڈاکٹر محمد محمود احمد تھے ڈاکٹر احمد کراچی آنے کے بعد جامعہ کراچی کے شعبہ فلسفہ کے صدر نشین بھی رہے۔یوسفی صاحب نے علی گڑھ سے ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی۔انیس سو چھیالیس میں انڈین آڈیٹر اینڈ اکاونٹس سروس آف انڈیا کا امتحان پاس کیا انیس سو چھیالیس میں یوسفی صاحب پروینشل سول سروس میں آئےاور انیس سو اننچاس تک ڈپٹی کمشنر رہے۔قیام پاکستان کے بعد ستمبر 1948 میں ان کا خاندان حیدرآباد پاکستان منتقل ہو گیا جنوری 1950 میں یوسفی صاحب نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا اور وہ بھی کراچی آ گئے۔15 جون 1946 کو یوسفی صاحب کی شادی آگرہ سے تعلق رکھنے والی محترمہ ادریس فاطمہ سے ہوئی وی ہیں ان کی فلسفے میں ایم اے کیا ہوا تھا ان کا انتقال 2006 میں ہوا۔

یوسفی صاحب کے تصنیفی ذخیرے میں پانچ کتابیں ہیں جو کہ بار بار شائع ہوئیں اس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ان کی پہلی کتاب چراغ تلے دوسری کتاب خاکم بدھن تیسری کتاب زرگذشت چوتھی کتاب آب گم اور پانچویں شام شعر یاراں ہے۔

انھیں ادبی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔انہیں اکادمی ادبیات نے پاکستان کے سب بڑے ادبی اعزازکمال فن ایوارڈ  سے نوازا اور بھی کئی ایوارڈز حاصل کیے۔مشتاق احمد یوسفی صاحب کو 1971 میں چراغ تلے پر انیس سو چھہتر میں خاکم بدھن اور زرگزشت پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔اکادمی ادبیات  نے سال کی بہترین کتاب کا ایوارڈ' حجرہ ایوارڈ' 1990 میں آب گم لکھنے پر دیا گیا۔

یوسفی صاحب اپنے ادب پاروں کو اتنی برجستگی شگفتگی اور دلکشی سے بیان کرتے تھے کہ سامعین و قارئین پر سحر طاری کردیتے۔یوسفی صاحب پوری زندگی بڑے افسر رہے لیکن ان میں عہدے کا گھمنڈ یا کرو فر ذرا بھی موجود نہیں تھا۔یوسفی صاحب ایک اچھے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شوہر بھی تھے۔


چراغ تلے




چراغ تلے کا انتساب مشتاق احمد یوسفی نے والد مرحوم کے نام کیا ہے دیباچہ پہلا پتھر کے عنوان سے لکھا جس میں لکھتے ہیں مقدمہ نگاری کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی پڑھا لکھا ہو اسی لئے بڑے بڑے مصنف بھاری رقم دے کر اپنی کتابوں پر پروفیسروں اور پولیس سے مقدمے لکھواتے اور چلواتے ہیں اور حسب منشا بدنامی کے ساتھ بری ہوتے ہیں فاضل مقدمہ نگار کا ایک پیغمبرانہ فرض یہ بھی ہے کہ وہ دلائل و نظائر سے ثابت کر دے کے اس کتاب مستطاب کے طلوع ہونے سے قبل ادب کا نقشہ مسدس حالی کے عرب جیسا تھا۔اس دیباچے سے ہی یوسفی صاحب کا رنگ مزاح عیاں ہو گیا قاری جب یہ مضامین پڑھتا ہے تو اس کے لیے بے ساختہ ہنسی پر قابو پانا مشکل اور ساتھ ہی ذہن کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کچھ اقتباسات پیش ہیں:

"ہمارے زمانے میں کتابیں اتنی آسان ہوتی تھیں کہ بچے تو بچے ان کے والدین بھی سمجھ سکتے تھے"


"انسان اگر قبل از وقت مر نہ سکے تو بیمہ کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے"


"جوان مولوی اور بوڑھے شائع پر اپنا دل تو نہیں ٹھکتا"


خاکم بدھن



یوسفی صاحب کی دوسری تصنیف خاکم بدھن 1969 میں شایع ہوئی جس میں بڑھتی عمر کے ساتھ زندگی کو نئے رخ سے دیکھنے کی کوشش واضح نظر آتی ہے نظامی طنز کی آمیزش بھی نمایاں ہے احمد یوسفی نے پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی کے موضوعات کتے اور چارپائی کو بھی موضوع بنایا لیکن ان مضامین کو بالکل نئے اور منفرد انداز سے پیش کیا کیا یوسفی صاحب نے کتے کی پرورش کی عمر کے بارے میں غلط فہمی اور اس کے گھر میں موجودگی سے پیدا صورتحال کو طنز و مزاح کے انداز میں پیش کیا ہے ۔

خاکم بدھن سے کچھ اقتباسات پیش ہیں:


"مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے"


"انسان واحد حیوان ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہو جاتا ہے"


"گانے والی کی صورت اچھی ہو تو مہمل شیر بھی سمجھ میں آ جاتا ہے"


زرگزشت



یوسفی صاحب کی تیسری کتاب زرگزشت 1975 میں منظر عام پر  آئی جس میں بطور کامیابی بینکار انہوں نے اپنے ترقی کے سفر کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا ہے 1950 میں بھارت سے پاکستان ہجرت اور پھر مشکل حالات میں نئے ملک اور نئے شعبہ زندگی میں قدم رکھنے کا بیان بھی کیا خوب ہےزرگزشت کو یوسفی صاحب نے سوانح عمری کا نام دیا ہے لیکن یہ ایک ادھیڑ عمر شخص کی زندگی کے تجربات پر مبنی تحریر ہے۔


"اگر آپ کو بھی انکشاف احوال واقعی پر اصرار ہے تو مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ 1974 میں میرے یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کا پریزیڈنٹ ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ جس انگریز جنرل منیجر نے 1950 میں انٹرویو کرکے مجھے بینک میں ملازم رکھا وہ اس وقت نشے میں دھت تھا اس واقعے سے سبق ملتا ہے کہ شراب نوشی کے نتائج کتنے دور ہوتے ہیں"


آب گم



جس میں 67 سالہ مشتاق احمد یوسفی کی عملی زندگی سے سبکدوشی دوستوں کی جدائی کا غم اور کھوئی ہوئی وقت کی تلاش نمایاں ہے جس میں ان کا فن عروج پر نظر آتا ہے تم کو مزاح کی کتاب کہنا یکسر غلط ہوگا یہ مزاحیہ سے زیادہ سنجیدہ کتاب ہے جس میں المناک واقعات کو مزاح کے شوگر کوٹڈ انداز میں پیش کیا گیا ہے کتاب کے بارے میں یوسفی صاحب کا کہنا ہے کہ:


"اس مجموعے کے بیشتر کردار ماضی پرست  ماضی زدہ اور مردم گزیدہ ہیں ان کا اصل مرض ناسٹلجیا  ہے جب انسان کو ماضی حال سے زیادہ پرکشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہو جائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے رقص طاؤس میں ناچتے ناچتے مجھے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور خاموش کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے ناسٹلجیا اسی لمحے منجمد کی داستان ہے"


شام شعر یاراں



شام شعر یاراں  2014 میں تقریبا 24 سال بعد شائع ہوئی ہوئی ہے کتاب سے اکثر قاری مایوس ہوئے ہیں کیونکہ ان کی ہر کتاب پہلی سے بڑھ کر تھی اور قارئین کو اس بار بھی آب گم سے بہتر کتاب کی امید تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا 2007 میں اہلیہ ادریس فاطمہ کے انتقال کے بعد یوسفی صاحب بجھ  گئے دوستوں کی جدائی کے بعد یہ آخری صدمہ ان کے لئے برداشت کرنا ناممکن تھا ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کتاب یوسفی صاحب کی مختلف اوقات میں کی گئی تقاریر اور تحاریر پر مبنی ہے جس پر انہیں صحت کی خرابی کی وجہ سے نظر ثانی بھی نا کر سکے۔ کئی یادوں پر مبنی طویل مضمون ہے جس میں یوسفی صاحب کا مخصوص رنگ نمایاں ہے۔

کچھ منتخب اقتباسات:


"انگریزی کی نسبت اردو میں بظاہر ایک ہی خامی نظر آتی ہے وہ یہ کہ آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے"


"ساس سسر موسم اور حکومت کے خلاف لکھنے کے لئے دماغ پر زور نہیں دینا پڑتا"


"اردو غزل کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ اس میں گھٹیا آدمی بڑھیا شعر نکال سکتا ہے"

افشاں سحر







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے