اشاعتیں

حکایات لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

حکایات سعدی5

حکایت   عبارت ہے دیں خدمت خلق  سے نہ  تسبیح  و سجاد  ہ و  دلق  سے خوشی سے تو کر زیب سراپنا تاج مگر حسن اخلا ق کو دے ر وا ج بزرگا ن دیں کا یہی  ہے طر یق قبا جسم پر د ل میں گدڑی ر فیق 
حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ حاکم شیراز جاز تکلہ بن زنگی  نے ایک دن اپنے ندیموں کی مجلس  میں یہ اعلان کیا کہ میں تخت حکومت کو چھوڑ کر باقی  عمر یاد خدا میں بسر کروں گا بادشاہ کی یہ بات سنی تو ایک روشن ضمیر بزرگ نے ناراض ہو کر کہا کہ اے بادشاہ اس خیال کو ذہن سے نکال دے دنیا ترک کر دینے کے مقابلے میں تیرے لیے یہ بات کہیں افضل ہے کہ تو عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرے اور اپنے اچھے کاموں سے خلق خدا کو فائدہ پہنچائے  یاد رک عبادت خلق خدا کی خدمت کے سوا کچھ نہیں  تسبیح وسجادہ تو یہمقصد حاصل کرنے کے ذریعے ہیں صاحب دل بزرگوں کا یہ دستور رہا ہے کہ گو ان کے جسم پر بہترین قبا ہوتی تھی لیکن وہ اس قبا کے نیچے پھٹا پرانا کرتا پہنتے تھے تو بھی یہی طریقہ اختیار کر صدق و صفا کو اپنا  اور شیخی اور ظاہر داری سے بچ شیخ سعدی بھی اس آیت مل میں یہی فرما رہے ہیں کہ دنیا اور…

حکایات سعدی4

حکایت
چھپر کھٹ نہ اپنا  فلک  پر  بچھا زمین پر اتر عجز سے سرجھکا کا رعایا سے غافل ہو جو حکمر ا ن سلامت نہیں اس کا تخت رو  ا ں غریبوں کا ہوگا اگر دوست د ا ر ملے گا  تجھے د ا ئمی ا قتد ا ر

حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی انگشتری میں ایک ایسا نگینہ جڑا ہوا تھا جس کی صحیح قیمت کا اندازہ جوہری بھی نہ کر سکتے تھے وہ گویا دریائے نور تھا جو رات کو دن میں بدل دیتا تھااتفاق ایسا ہوا کہ ایک سال سخت قحط پڑا لوگ بھوکے مرنے لگے حضرت کو ان حالات کا علم ہوا تو لوگوں کی مدد کے لیے انہوں نے اپنی انگشتری کا ونگینہ بھی فروخت کر دیا اور جو قیمت ملی اس سے اناج خرید کر تقسیم کروا دیا جب اس بات کا علم آپ کے دوستوں کو ہوا تو ان میں سے ایک نے آپ سے کہا یہ آپ نے کیا کیا اتنا قیمتی نہ بھیج دیا حضرت نے یہ بات سن کر فرمایا کہ وہ زینہ مجھے بھی بے حد پسند تھا لیکن یہ میں یہ بات گوارا نہیں کر سکتا کہ لوگ سے تڑپ رہے ہو اور میں قیمتی نگینے والی انگوٹھی پہنے بیٹھا رہوں اور یہ بات کسی بھی حکمران کو زیب نہیں دیتی کہ وہ لوگوں کو تکلیف میں مبتلا دیکھے اور اپنے آرام اور زیب و…

حکایت سعدی3

حکایت  
اےشخص بدی کا بیج نہ بو اس آگ سے اپنی جان بچا ہوتجھ سے جہاں تک نیکی کر نیکی ہی نفع پہنچائےگی           ا للّہ  کا و عد ہ  سچا ہے بر با د نہ  ہو گا  نیک  عمل   اک جو کہ برابر نیکی بھی جنت میں تجھے لے ائےگی 
کہا جاتا ہے کہ ایک ہی بہت نیک خصلت نوجوان نے مصیبت کے وقت ایک بوڑھے شخص کی مدد کی اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد ایسا ہوا کہ اس نوجوان سے ایک جرم سرزد ہوگیا اور شاہی سپاہیوں نے اسے گرفتار کر لیا اور جب بادشاہ کے دربار میں اسے پیش کیا گیا تو اس مقدمہ کو سننےکے بعد بادشاہ نے فیصلہ سنایا کہ اس کو قتل کردیا جائے جلاد کو بلایا گیا اور نوجوان کو پھانسی دینے کےلیےاس زمانے کے دستور کے مطابق ہزاروں افراد کی موجودگی میں لے جایا گیا اتفاق کی بات ہے کہ اس ہجوم میں وہ بوڑھا بھی موجود تھا جس کے ساتھ اس نوجوان نے نیکی کی تھی بوڑھے نے اس نوجوان کو دیکھا  اور پہچان لیاوہ فکرمند ہو گیا اور افسوس بھی ہوا کہ جس شخص نے میری مدد کی تھی وہ آج مشکل میں ہے میں اس کی کس طرح سے مدد کروں اس کے ذہن میں فوراً ایک ترکیب آئی اور اس نے شور مچادیا کہ ب…

حکایات سعدی2

حکایات سعدی؛   ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مامون الرشید نے ایک لونڈی خریدی جس کے حسن کی مثال ہی نہیں ملتی تھی وہ بے انتہا خوبصورت تھی لیکن جب مامون الرشید نے اس سے بات کرنی چاہیے تو اس نے نفرت اور بے رغبتی کا اظہار کیا بادشاہ کو بہت زیادہ غصہ آیا اور وہ غصےسےبےقابو ہو گیا اسی غصے میں اسنے لونڈی کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا لیکن پھر ان کا تدبر اس پر غالب آگیا اور انہوں نے اس سے اس گستاخی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا امیرالمومنین آپ بیشک مجھے قتل کردیں لیکن میں آپ کے ساتھ رہنا پسند نہیں کروں گی مامون رشید غصے سے بے قابو ہو گئے انہوں نے اپنے آپ کو پھر سنبھالا اور اس سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے جو تم اس طرح کہہ رہی ہوں تو لونڈی نے جواب دیا آپ کے منہ سے سخت بدبو آتی ہے جسے میں برداشت نہیں کرسکتی مامون رشید کو اب تک اپنی اس بیماری کا معلوم نہیں تھا ان کو جب یہ پتہ چلا تو انہوں نے کسی طبیب کو بلایا کچھ عرصے تک ان کا علاج چلتا رہا اور ان کا یہ مرض دور ہو گیا اس لونڈی کی صاف گوئی کی وجہ سے مامون الرشیداس سے بہت خوش ہوئے۔
حکایت؛جو راستے کے خطرے سے تجھے کرےا گر چہ تلخ نوا ئ یا ں ہو وہ تیرا بھا ئیغلط  کو  ٹھیک …

حکایاتِ سعدی1

حکایاتِ سعدی شیخ سعدی کا نام شرفُ الدین تھااور تخلص سعدی تھا آپ  کے والد صاحب کا اسم مبارک سیّد عبد اللّٰه شیرازی تھاان کے آباؤآجداد عرب سے ہجرت کر کے ایران کے صوبے شیراز میں آباد ہوئے تھے -     
  حکایت؛
کہا جاتا ہے کہ ایک بہت ہی نیک سیرت شخص تھا جو اپنے دشمن کاذکر بھی برائی سے نہ کرتا تھا وہ جب بھی کسی کے بارے میں بات کرتا اس کی زبان سےنیک کلمات ہی نکلتے جب اس کا انتقال ہو گیا تو ایک شخص نے اُسے خواب میں دیکھا تو سوال کیا سناؤ میاں دوسری زندگی میں کیا معاملہ رہا پکڑ ہوئی یا بخشش ہو گئی؟ یہ سوال سن کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور وہ بلبل کی طرح شیریں آواز میں بولا دنیا میں میں اس بات سے بچتا تھا میری زبان سے کسی کے بارے میں کوئی بری بات نہ نکلے  نکیرین نے بھی مجھ سے کوئی سخت سوال نہ کیا اور اس وجہ سے میرا معاملہ بہت اچھا رہا -       برا ئی  سے  کسی  کو  یاد   کرنا  بھی  برا ئی  ہے    جو عاقل ہیں بروں کو بھی برا کہنے سے ڈرتے ہیں       کسے معلوم کس کے وا سطے کیا  حکم  صا در  ہو      اسی  دہشت  سے وہ  ہر وقت ا ستغفا ر کرتے  ہیں