Ads

شوارما از مہر یکتا (انشائیہ)

 



رمضان اور شورما کا شوق

شوقین مزاجوں کے رنگین طبیعت کے 

وہ لوگ بلا لاؤ نمکین طبیعت کے

یوں تو لوگوں کے بہت سارے شوق ہوتے ہیں لیکن ہماری طبیعت کچھ نمکین ہے۔اسی سبب مرغوب غذا شورما ہے۔ آپ کہیں گے کہ بھائی شورما میں ایسی کون سی بات ہے؟ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ کھانے سے اچھا ہے کہ گھر کی گوشت روٹی کھائی جائے۔ میں اس بات پر آپ کی بے ذوقی کی داد دینے کی خواہاں ہوں اورکہوں گی کہ پھر آپ باہر بریانی کھانے کے بجائے اپنے گھر میں بنے ہوئے گوشت اور چاول کو ملاکر کھا لیں لیکن خدا کے واسطے شورما کی توہین نہ کریں۔یہ پسند پسند کی بات ہے۔ لیکن مجھے تو شورما دل و جان سے عزیز ہے۔آپ میرے اس جملے میں حیران نہ ہوں۔ آگے آگے دیکھتے جائیں دل و جان سے جو چیز عزیز ہوتی ہے وہ آپ کو رسوا کرکے چھوڑتی ہے۔آپ کو میری اس بات سے اختلاف کا حق ہے۔تو عرض کر رہی تھی کہ شورما میں میری کمزوری ہے۔ ایسی کمزوری جس سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں،گھر  میں کسی بات پر ناراضگی ہوئی تو:

اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا

یہاں جام کے بجائے شورما رکھ دیا جاتا ہے۔ مجھے پتہ ہے آپ کیا سوچ رہے ہیں۔ جہاں گھر والے فائدہ اٹھاتے ہیں وہاں میں بھی بھی چھوٹی چھوٹی بات پر ناراض ہو کر یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ہوں گی۔ بالکل چھوٹی چھوٹی بات پر آگ بگولہ ہونے کے بجائے شعلہ و جوالا ہو جاتی ہوں۔ لیکن کبھی کبھی اس کا سائڈ ایفکٹ بھی ہو جاتا ہے۔اکثر میدان میرے ہی ہاتھ رہتا ہے۔

لیکن یہ سب اپنی جگہ اور ”رسوائی“ اپنی جگہ۔آب آپ پوچھیں گے رسوائی کا کیا تعلق ہے۔ لیکن اسی شوق نے رسوا کیا سرِ بازار ہمیں۔ وہ اس طرح کہ ایک دن رمضان کے بابرکت مہینے میں بھوک نے سراٹھایا۔معمولی بھوک نہیں شورما کی بھوک نے۔اور ہم بنا کسی خیال کے برق رفتاری سے سی۔سی جا پہنچے اور اسی رفتار کے ساتھ شورمابھی ہمارے سامنے تھا۔ ہم نے بھی ندیدے پن کے مظاہرے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اپنے اطراف سے بے پرواہ جلدی جلدی شورما پر ہاتھ صاف کرنے کی ذمہ داری اٹھالی۔لیکن دفعتاًاحساس ہوا کہ کوئی مسلسل سامنے سے دیکھ رہا ہے:

ایک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ 

چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے

کھانے میں اس قسم کی خوش فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں لیکن جناب! معاملہ بالکل برعکس تھا۔ ایک اچٹتی سی نظر ڈالی،پھر دوبارہ،پھر کئی نظریں ڈالیں۔ بلکہ منجمد ہوکر نظریں جما دیں۔ پہلے تو منظر دھندلایا،پھر صاف ہو گیا۔منہ سے رک رک کر نکلا ”انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔“ جناب! وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے استادِ محترم تھے۔ جو بنا پلکیں جھپکائے دیکھ رہے تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ یوں اس لیے دیکھ رہے ہوں کہ پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔نہیں جناب! وہ تو پہچان گئے لیکن ان کو یقین نہیں ہو رہا تھا۔اس میں ان کی غلطی نہیں۔میری صورت ہی بالکل متقیوں و الی ہے۔بس لمبی داڑھی نہیں ہے۔نہ سجدے کا نشان ہے لیکن جو بھی دیکھتا ہے بہت عالمانہ اور زاہدانہ طبیعت کا سمجھتا ہے۔ سمجھنے کو تو کچھ بھی سمجھیں لیکن قبر کا حال مردہ ہی جاننا ہے۔ابھی تو میں خوب بول رہی ہوں اس وقت منہ میں جو شورما تھا اسے نہ گھونٹتے بن رہا تھا نہ ہی اگلتے۔

نہ اگلا جائے ہے مجھ سے نہ گھونٹا جائے مجھ سے

اس وقت رحمت یزداں جوش میں آئی اور استادِ محترم نے پاس سے گذرتے ہوئے شخص کو پہچان کر دعا سلام کرنے میں مشغول ہوئے اور میں نے موقع کو غنیمت جان کر وہاں سے کھسکنے میں ہی بہتری سمجھی۔ اگرچہ ابھی دل میں ’ھل من مزید‘ کی خواہش موجود تھی لیکن جناب وہاں سے بھاگتی نہیں تو کیا کرتی۔اتنی تو شرم باقی ہے؟ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں یونہی روزے کو بہلاتی رہتی ہوں۔ کبھی ایک ٹکڑا شورما کھا کر کبھی ایک گلاس کولڈڈرنکس کاپی کر۔ اس خیال کو بالکل غلط کردیں۔

آخر گناہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں 

اگرچہ یہ کافری نہیں ہے لیکن کافری سے کم بھی نہیں ہے۔لیکن معاملہ برعکس ہے۔ آپ جو سوچ رہے ہیں ویسا نہیں ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا کرم ہے کہ انھوں نے رمضان میں ایک ہفتے کی دوا تجویز کرکے شورما کھانے کا سنہرا موقع اس مبارک مہینے میں بھی فراہم کیا۔ اب آپ میرے اس جملے پر فتویٰ صادر کریں گے،تو کریں۔ لیکن دیکھیں اس شوق نے آگے کیا گل کھلائے۔ اگلی کلاس میں استادِ محترم نے ہم سے آتے ہی پوچھ لیا کہ آج بھی کھانا ہے۔پہلے تو یہ بات کلاس میں پھیلی اور پھر سارے ڈپارٹمنٹ میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔جدھر سے گذروں تو لوگ مسکرا کر کہتے وہی شورما والی آپا ہیں۔ سینئرز بولتے کہ شورماوالی محترمہ جارہی ہیں۔حد تو یہ ہوئی کہ فیئر ویل میں اسی لقب سے نواز اگیا۔ میرا نام ہی یہی پڑگیا۔ جیسے ساغر خیامی کا تخلص ان کے ایک قطعہ کی وجہ سے”کتے کا کیک“ پڑگیا تھا۔ بے چارے جہاں سے گذرے لوگ کہتے دیکھو وہ جا رہے ہیں ”کتے کا کیک۔“



ہوئے کھا کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

پھر بھی دل میں خواہش ہوتی ہے:

مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس

زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کئے ہوئے

یہ آپ کی سوچ ہے۔ مجھے اس طرح کی خواہش بالکل نہیں ہوتی۔مجھے تو بس یہ عرض کرنا ہے کہ آپ اس مضمون کو پڑھ کر بھلے ہی داد نہ دیں۔ لیکن براہِ مہربانی اس عرق فشانی کے بدلے مجھے شورما کی دعوت پر مدعو کر سکتے ہیں۔ میں دعوت قبول کرکے آپ کو شکریہ کا موقع عنایت کروں گی۔

(مہر یکتا)


ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

if you want to ask something feel free to ask.