Ads

صالحہ صدیقی (تعارف)



 سوال  ۱۔     آپ کا پورا نام کیا ہے؟

جواب :  میرا پورا نام صالحہ صدیقی ہے اور یہی میرا قلمی نام بھی ہے۔


سوال  ۲۔آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟

جواب :   میرا تعلق سنگم نگری الٰہ آباد (یو۔پی انڈیا)سے ہے۔جو پریاگ راج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔


سوال  ۳۔آپ کی تعلیم کیا ہے؟

جواب :  میری ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے سے شروع ہوئی،جہاں تختی دوات سے علمی سفر کا آغاز ہوا،نویں جماعت تک مدرسے میں پڑھنے کے بعد میرا داخلہ کرشچن اسکول”میری وانا میکر کرلس انٹر کالج الٰہ آباد“ میں ہوا جہاں سے میں نے انٹر میڈیٹ تک کی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی۔اے اور ایم۔اے (اردو) کرنے کر بعد یو۔جی۔سی نیٹ اور جے۔آر۔ایف کا امتحان پاس کرنے کے بعد دہلی آگئی۔جہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اردوزبان میں ممتاز شاعر و ادیب پروفیسر وجیہ الدین شہپر رسول صاحب کی نگرانی میں ”علامہ اقبال کی اردو شاعری میں ڈرامائی عناصر ایک تنقیدی مطالعہ“کے موضوع پر اپنا مقالہ جمع کر پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔


سوال  ۴۔آپ کو لکھنے کا شوق کب ہوا؟ 

جواب :  میری اردو زبان سے دوستی مدرسے کے پہلے دن سے ہی ہوگئی تھی۔قاعدہ کے ساتھ ہمیں الف سے انار بھی سکھایا گیا۔بچوں کی اصلاح و تربیت کے لیے دینی تعلیم کا رسالہ جو مدرسے میں ہمیں پڑھایا جاتا  اس میں چھوٹی چھوٹی سبق آموز قصے کہانیاں ہوتیں انھیں ہمیں پڑھایاجاتا،گھر میں نانی دادی اور پھوپھیوں سے روز رات کو پریوں اورجن کی کہانیا ں سنتی اس طرح کہانیوں کو پڑھنے اور سننے کا شوق پیدا ہوا۔کوئی بھی قصے کہانی کی کتاب ہوتی فورا لے کر بیٹھ جاتی اور جب تک آخری صفحہ نہیں پڑھ لیتی تب تک ذہن کتاب میں رہتا،اس طرح اوائل عمری سے ہی مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق ہو گیا۔گھر میں اردو ہندی اخبارات،رسائل اور ڈائجسٹ وغیرہ مثلا پاکیزہ آنچل،مہتا آنچل،ھلال،امنگ وغیرہ آتے تھے جن میں کہانیاں،افسانے،اقوال زریں اور شاعری کو میں بہت شوق سے پڑھتی اور پسندیدہ اشعار وغیرہ

ڈائری میں نوٹ کر لیتی تھی۔اس طرح سے قصے کہانیوں کے شوق نے مجھ میں سوچنے سمجھنے اور غورو فکر کرنے کا سلیقہ سکھا دیا،دھیرے دھیرے یہ شوق لکھنے میں بھی تبدیل ہوا،ابتدأ میں خود اعتمادی کی کمی کے سبب خیالات صرف ڈائری کا ہی حصہ رہے لیکن جب اعلیٰ تعلیم کے لیے کالج میں داخلہ ہوا تو میرے اندر اعتماد بڑھنے لگا اور ڈائری میں قید الفاظ باہر آنے لگے۔دوستوں نے حوصلہ افزائی کی تو میری تحریریں رسائل و جرائد کی زینت بننے لگے۔اس طرح لکھنے پڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

بچپن سے ہی مجھے ٹیلی ویژن سیریل اور بولی ووڈ فلمیں دیکھنے کا شوق رہا ہے۔ جس سے مجھے ڈرامے میں بھی خاصی دلچسپی رہی۔اس لیے کہانیوں کے ساتھ میں ڈرامے کی طرف بھی راغب ہو تی چلی گئی،اسکول اور کالج میں کئی بار اسٹیج پر ڈرامامیں ایکٹنگ کا بھی موقع ملاجس سے مجھے ڈرامے سے خاصی انسیت ہو گئی،جس کا نتیجہ یہ ہواکہ میں نے اپنا پہلا ڈرامہ علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی کی کشمکش پر مبنی بعنوان ”علامہ“ لکھا،یہ علامہ اقبال کی زندگی پر لکھا اردو میں پہلا ڈراما بھی ہے۔جسے پریاگ راج میں اسٹیج بھی کیا گیا۔میں نے اب تک افسانہ،ڈراما،بچوں کی کہانیاں،خاکہ مضامین اور نظمیں لکھی ہیں انشاء اللہ آگے بھی لکھتی رہونگی۔


سوال  ۵۔آپ کے پسندیدہ استاد کون ہیں؟

جواب :  والدین کے بعد ایک انسان کی زندگی کو سنوارنے،راہ دکھانے اور اسے نکھارنے میں استاد بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ اسکول سے لے کر کالج ختم ہونے اور پھر منزل تک پہنچنے میں ایک سچا استاد ہی رہمنائی کرتا ہے،لیکن زندگی میں بہت سے ایسے لوگ بھی ملتے ہے جو بظاہر کسی علمی ادارے سے جڑے نہیں ہوتے لیکن وہ آپ کو ایک استاد کی طرح گائڈ کرتے ہے اور منزل تک پہنچنے میں مدد کرتے ہے۔میری زندگی میں بھی ایسے ہی مخلص انسان رہے ہیں جنھوں نے ہمیشہ مجھے زندگی کی جد وجہد میں مشکلات کا سامنا کرنے میں میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔اسکول سے لے کر کالج تک اللہ کے کرم سے مجھے بہت اچھے استاد ملے جن سے میں نے ہمیشہ سیکھا،اس لیے کسی ایک کا انتخاب میرے لیے ایک مشکل عمل ہے۔اگر میں کچھ سال پیچھے جاؤں اور خود کو دیکھوں تو مجھے سنوارنے اور مجھے خود سے ملوانے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور وہاں کے اساتذہ کا بہت اہم رول رہا ہے۔پروفیسر وجیہ الدین شہپر رسول صاحب جن کی نگرانی میں میں نے اپنا مقالہ لکھا،پروفیسر خالد محمود صاحب،پروفیسر خالد انجم سر،خالد جاوید سر،احمد محفوظ سر کوثر مظہری سر،ندیم سر حقانی القاسمی سرجیسے مخلص استاد نمایاں نظر آتے ہیں۔الٰہ آباد سے دہلی میرے لیے بالکل نیا تجربہ تھا۔لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہئ اردو کے تمام اساتذہ کی محبت خلوص اور شاگردوں کے لیے ان کے دل میں پوشیدہ مدد کا جذبہ ہمیشہ ہم طالب علموں کے لیے ہمت اور حوصلے کا سبب بنا اور کبھی انجان محسوس نہیں ہوا۔


سوال  ٦۔کون سے انشاء پرداز کو پسند کرتی ہیں؟

جواب :  انشاء پردازی ایک ایسی صنف ہے جس میں ہر قلم کار کا اپنا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔انشائیہ جو ایک خاص انداز میں لکھا جاتا

ہے،جس کی بے ترتیبی کا اپنا ربط ضبط ہوتا ہے اور بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے بظاہر دکھنے والی بے ترتیبی ہی اس صنف کو منفرد بناتی ہے جس میں شعور ی ربط و تسلسل قائم رہتا ہے۔اس انوکھی تکنیک کو برتنے میں ہر مصنف اپنے علم و ہنر کا استعمال کرتا ہے اور اسے اپنے انداز میں بنتا ہے۔اس لیے میراکوئی ایک پسندیدہ انشاء پرداز نہیں ہے مجھے ہر مصنف کے یہاں کچھ خاص باتیں پڑھنے کو ملی لیکن اگر ان میں کسی کا نام لینا پڑے تو ان میں پہلا نام مولانا ابولکلام آزادکا ہوگا اس کے علاوہ ڈاکٹر انور سدید،وزیر آغا،مشفق خواجہ،مشتاق احمد یوسفی،مجتبیٰ حسین،وحید قریشی،سید ظہیرا لدین مدنی،ڈاکٹر سلیم اختر وغیرہ۔

سوال  ۷۔ اور کیوں پسند کرتی ہیں؟

 جواب :  انشائیہ صنف ہی ایسی ہے جو ہر تخلیق کار کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ان تمام مصنفین نے اپنے انشائیوں میں اپنی دماغی ترنگوں کا استعمال کر اپنے اسلوب و انداز میں انشائیہ لکھا۔جس کے سبب پڑھنے والے کو اپنی سی بات لگتی ہے۔


سوال  ۸۔انشائیہ کے علاوہ آپ کو کیا لکھنا پسند ہے؟

جواب :   انشائیہ کے علاوہ مجھے فکشن میں خاصی دلچسپی ہے۔ڈراما،نظمیں،افسانے اور بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا مجھے بہت پسند ہے۔مجھے حالات حاضرہ پر لکھنا خواتین کے مسائل پر لکھنا بھی اچھا لگتا ہے۔تانیثیت پراب تک میں نے بیس سے زائد مضامین لکھے ہیں۔میں اپنے آس پاس چل رہے مسائل اور ان کا زندگی پر پڑنے والے اثرات پر سوچنا اور اظہار خیال کرنا قلم اٹھانا پسند کرتی ہوں۔

 

سوال  ۹۔آپ نے کس صنف ادب پر قلم اٹھایا؟

جواب :  میں نے مختلف صنف میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔میں نے جیسا کہ پہلے بھی بتایا کہ علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی پر مبنی ایک ڈراما بعنوان ”علامہ“ لکھا ہے،اس کے علاوہ افسانے،بچوں کی کہانیا ں،بچوں کے لیے گیت،نظمیں،خاکہ،تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ ہندی سے اردو اور اردو سے ہندی زبان میں تراجم بھی کیے ہیں۔

سوال  ۰۱۔آپ کا پسندیدہ شاعر کون ہے؟

جواب :   میرے پسندیدہ شاعروں کی فہرست یوں تو بہت طویل ہے جن میں انتخاب کی فہرست بھی لمبی ہے۔لیکن اگر کسی ایک کا نام لینا پڑے تو بلا جھجھک میں علامہ اقبال کا نام لونگی۔جن کو پڑھنے کے بعد میں نے زندگی کو صحیح معنی میں سمجھا۔ان کا ہر شعر ایک جہان معنی لیے ہوئے ہے جس میں جتنا ڈوبتے جائنگے وہ اتنا ہی گہرا ہوتا جائے گا۔ان کی شاعری کے اوصاف پر اور میں نے کیا کیا سیکھا ہے اس پر بات کرونگی تو شاید پوری کتاب لکھ لونگی۔حالانکہ میں نے اپنا ضخیم پی۔ایچ۔ڈی مقالہ ان پر لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لی ہے لیکن پھر بھی

جب ان کے اشعار پر غور کرتی ہوں تو ایک نئی بات نکل جاتی ہے اس لیے مجھے تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔کیونکہ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔

سوال  ۱۱۔اپنا پسندیدہ کلام (شاعری میں)سنائیے؟

جواب :  اب چونکہ بات اقبالؔ کی چل پڑی ہے اس لیے میں اپنے دیگر پسندیدہ شاعروں کے افسانے پھر کبھی چھیڑونگی فی الحال میں اقبالؔ کی ہی ایک نظم اور کچھ اشعار سنا دیتی ہوں جو کہ میرے دل کے بہت قریب ہے اور مجھے ہمیشہ متحرک رکھتی ہے اور ہر مشکل وقت میں مجھے ہمت بھی دیتی ہے،ملاحظہ فرمائیں:

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر 

نیا زمانہ،نئے صبح و شام پیدا کر

خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو

سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر

اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں 

سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر

میں شاخ تاک ہوں،میری غزل ہے میرا ثمر

مرے ثمر سے می ء لالہ فام پیدا کر 

مرا طریق امیری نہیں،فقیری ہے 

خودی نہ بیچ،غریبی میں نام پیدا کر!

٭٭٭

غریبی میں ہوں محسود امیری

کہ غیرت مند ہے میری فقیری

حذر اس فقر و درویشی سے،جس نے

مسلماں کو سکھا دی سر بزیری!

٭٭٭

کہاں اقبالؔ نے شیخ حرم سے 

تہ محراب مسجد سو گیا کون 

ندا مسجد کی دیواروں سے آئی 

فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟
٭٭٭
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے 
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے 
عبث ہے شکوہئ تقدیر یزداں 
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟

سوال  ۲۱۔اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ بیا ن کریں؟
جواب :  میں نے اپنی زندگی بہت مسکراتے ہوئے گزاری ہے۔کبھی بھی کوئی پریشانی مجھے زیادہ وقت تک پریشان نہیں رکھ پاتی۔اس لیے دلچسپ واقعات کا بھی انبار ہے جسے سنانے بیٹھوں گی اور بات نکلے گی تو بہت دور تک جائے گی اس لیے اس بات کو یہی ختم کرتے ہے۔
سوال  ۳۱۔کوئی ایسی شخصیت جس سے ملنے کی خواہش ہو؟
جواب :   میرے لیے یہ وقتی معاملہ رہا ہے اورہزاروں خواہشیں ایسی.........والا معاملہ بھی رہاہے جو کبھی پورا نہیں ہوا۔مثلا بچپن میں مجھے شکتی مان سے ملنا تھا۔پھر بولی ووڈ سانگ سننے فلمیں دیکھنے کا شوق بڑھا تو ہائی اسکول پہنچتے پہنچتے اکشے کمار،سلمان خان،کرشمہ کپوراور سشمیتا سین سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ادب پڑھنے کے بعد سیریس فلمیں دیکھنے کے بعد مجھے عمران خان (مرحوم)سے ملنے کا بہت شوق تھا لیکن اتنی کم عمری میں ہی انھوں نے اس جہان فانی کو ہی الوداع کہہ دیا۔فی الحال تو ایسی کوئی خواہش نہیں ہے لیکن اگر موقع ملے تو میں نصیر الدین شاہ اور گلزارصاحب سے ملنا چاہونگی اور بہت سارے سوال کے جواب پوچھنا چاہونگی جو شاید ہی کبھی پورا ہو۔

سوال  ۴۱۔پاکستان اور ہندوستان کے انشاء پردازوں میں کیا چیز مشترک نظر آتی ہے؟
جواب :  تخلیق کاروں یا فنکاروں کی تخلیقی دنیا میں مشترک کچھ بھی نہیں ہوتا۔ہم اپنے ذہن سے مشترک اوصاف تلاش کرتے ہیں۔موضوع ایک ہو سکتا ہے الفاظ نہیں۔تخلیق کار کو سرحدیں بانٹ نہیں سکتی وہ صرف دنیا کو اپنی فنی و فکری نظر سے دیکھتا ہے اور اسے کاغذ پر اتار دیتا ہے۔مجھے لگتا ہے ہر مصنف کے اپنے اوصاف ہے جسے اسی کے کینوس میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔لیکن ایک بات میں یہاں ضرور کہنا چاہونگی کہ آزادی کے بعد ہندوستان کے مقابلے پاکستان میں انشائیہ کی طرف زیادہ توجہ کی گئی یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں 
صدی میں کوئی بڑا چہرہ اس صنف میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔

سوال ۵ ۱۔اپنی تصنیفات کے بارے میں بتائیے؟
جواب :  جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا مجھے مختلف اصناف میں لکھنا پسند ہے میری کتابیں بھی مختلف موضوعات پر مبنی ہیں۔ جن میں شامل ہیں۔(۱)اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں  2013  ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔
(۲)ضیائے اردو (ضیاء فتح آبادی حیات و خدمات) 2016  بک کارپوریشن،دہلی سے شائع۔
(۳)سورج ڈوب گیا (اردو سے ہندی ترجمہ)دارالاشاعت مصطفاعی دہلی سے2017 شائع۔
(۴)نیاز نامہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی  سے 2017 شائع۔
(۵)ڈراما ”علامہ“(اردو سے ہندی ترجمہ)دارالاشاعت مصطفاعی دہلی سے2017 شائع۔
(۶) ڈراما ”علامہ“ کے دو ایڈیشن،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی  سے شائع۔
میری ان کتابوں میں ڈراما ”علامہ“ اور ”نیاز نامہ“ کے لیے اتر پردیش اردو اکیڈمی کی طرف سے انعام بھی مل چکا ہے۔ اس کے علاوہ احمد نگر ضلع اردو ساہتیہ پریشد نے ”اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں“ کے لیے ”اردو خدمت گار ایوارڈ“اور ڈراما”علامہ“ کے لیے  ہلپ کیئر فاؤنڈیشن نے ”جہانگیر لٹریری ایوارڈ“ سے بھی نوازا ہے۔

ڈاکٹر صالحہ صدیقی (الٰہ آباد) 
salehasiddiquin@gmail.com



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے