اردو لیکچرر ٹیسٹ کی تیاری
مضمون نگاری کی تعریف اور اس کے اصول ;
مضمون نگاری اردو نثر کی خاص صنف ہےـ انگریزی میں اسے Essay کہتے ہیں ـ یہ غیر افسانوی صنف ہےـ جس کا آغاز اردو میں دہلی کالج سے ہوتا ہےـ سر سید احمد خان اور ان کے ساتھیوں نےاس صنف کو بہت فروغ دیا
مضمون کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ کسی موضوع پر اپنے خیالات کو مربوط اور مدلل انداز میں اس طرح پیش کرنا کہ پڑھنے والا اس کو سمجھ کر متاثر ہو سکے، مضمون کہلاتا ہےـ
سر سید احمد خان نے مضمون نگاری کے لیےتین شرطوں کو ضروری قرار دیا ہےـ
(1) مضمون کا پیرایے بیان سادہ ہو ، پیچیدہ اور پرتکلف اسلوب مضمون کا عیب ہےـ
(2) مضمون کی دوسری شرط یہ ہے کہ جو خیالات اور جو باتیں اس میں پیش کی جائیں ان میں دلکشی ہوں ـ صرف الفاظ اور انداز بیان کا دلکش ہونا مضمون کے لیے کافی نہیں ـ
(3) تیسری اور آخری شرط اچھے مضمون کے لیے یہ ہے کہ مضمون نگار کے دل میں جو بات ہو وہ پڑھنے والوں تک پہنچے، اس سے مراد یہ ہے کہ مضمون میں جو خیالات پیش کیے جائیں وہ اس طرح مربوط ہو جس طرح زنجیرکی کڑیاں ایک دوسرے سے مربوط ہوتی ہیں خیالات میں ربط نہ ہونا اور انتشار کا پایا جانا مضمون کا عیب ہےـ ہر پیراگراف اپنے پہلے پیراگراف سے فکری سطح پر جڑا ہونا چاہیےـ
عام طورپر ہر مضمون کے تین حصے ہوتے ہیں :ـ
(1) تمہید
(2) اصل مضمون
(3) اختتام کا انجام
تفصیلی وضاحت:-
(1) تمہید :-
مضمون کی ابتدائی حصہ تمہید کہلاتا ہےـ اسے خاص طور پر دلچسپ ہونا چاہیے تاکہ پڑھنے والا مضمون کے ابتدائی جملوں کو دیکھ کر پورا مضمون پڑھنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہو جایےـ
تمہید کا حصہ اگر خشک اور غیردلچسپ ہوگا تو پڑھنے والا اس کے مطالعے کے لیےاپنے آپ کو آمادہ نہیں کر پایےگاـ مضمون کے لیے ایک اچھی تمہید مضمون نگار کی کامیابی کی دلیل ہےـ اس کے لیے فقط انداز بیان کی دلچسپی ہی کافی نہیں بلکہ تمہید میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہےانھیں بھی مضمون سے مربوط ہونا چاہیےـ اچھی تمہید مضمون کو ایک وحدت عطا کرتی ہے اس لیے یہ مضمون کی بنیادی شکل ہےـ
(2) اصل مضمون :-
تمہید کے بعدمضمون نگار ان مسائل کی طرف رجوع کرتا ہے جس کے لیے تمہید قائم کی گئی تھی ـ یہ مضمون کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے اور پڑھنے والوں کو زیادہ متوجہ بھی کرتا ہےـ اسی حصے میں مضمون نگار مضمون سے متعلق اپنے نقطئہ نظر کو پیش کرتا ہے اور اس کے حق میں دلائل بھی فراہم کرتا ہےـ مضمون کا یہ حصہ زیادہ منطقی،فکر انگیز اور خیال افروز ہوتا ہےـ
مضمون نگار اس حصےمیں موضوع سے متعلق مختلف تنقیدی جائزہ بھی لیتا ہےـ اس حصے کی خوبی یہ مانی جاتی ہے کہ اس میں جزباتی پیرایے بیان سے پرہیز کیا جایےاور فقط اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیادپر دلائل قائم کرنے کے بجایے منطقی استدلال کی روشنی میں کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جایےـ
مضمون کے اس حصے میں اصل مسئلےکے تمام پہلوؤں روشن ہو کر سامنے آ جاتا ہے اور پڑھنےوالا بھی عقل کی رہنمائی میں رفتہ رفتہ مضمون نگار کا ہم خیال ہو جاتا ہےـ مضمون کا یہ حصہ باقی حصوں کےمقابلےمیں طویل ہوتا ہے اور کئی پیراگراف پر مشتمل ہوتا ہےـ
(3) اختتام :-
مضمون کا آخری حصہ اختتامیہ کہلاتا ہےـ اس حصہ میں مضمون نگار مضمون میں بیان کیے گیےتمام پہلووں کو کم سے کم الفاظ میں سمیٹ کر حاصل کلام بیان کرتا ہےـمضمون کے درمیانی حصہ میں جو تفصیلات پیش کی گئیں تھیں اور موضوع کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا گیا تھا اس سے برآمد ہونے والے نتائج اختتامیہ میں نہایت موثر انداز میں پیش کیے جاتے ہیں ـ
اختتامیہ کی خوبی یہ سمجھی جاتی ہےکہاس کو پڑھ لینے کے بعد قاری کے ذہن میں کوئی تشنگی باقی نہ رہ جایےاور موضوع کے متعلق قاری مضمون نگار کے خیالات سے پوری طرح اتفاق کر لےـ اختتامیہ میں جو نتائج پیش کیے جاتے ہیں اگر ان کی پیشکش کا انداز واضح، اطمینان بخش اور مئوثر نہیں ہوگا تو پڑھنے والا ذہنی الجھنوں کا شکار ہو جایےگا اور یہ اختتامیہ کا عیب ہےـ پورے مضمون کو چند جملوں میں اس طرح سمیٹ لینا کہ تمام ضروری پہلو سامنے آ جایےاگرچہ دشوار ہوتا ہےلیکن ایک اچھےاختتامیہ کی یہی خوبی سمجھی جاتی ہےـ
تحریر تاج محمد خان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
if you want to ask something feel free to ask.