نوجوان نسل کے شاعر عبدالمنان صمدی
عبدالمنان صمدی
آج میں نوجوان نسل کی جس شاعر کا تعارف آپ سے کروانے جا رہی ہوں ان کا تعلق انڈیا سے ہے۔
عبدالمنان صمدی
والد صاحب کا نام انجینئر جناب عبد الصمد ہے اسی نسبت سے صمدی تخلص اختیار کیا والدہ محترمہ کا نام ریحانہ پروینہے اہلیہ کا نام یاسمین اور دخترام ہانی ہیں ان کا تعلق ہندوستان کے مشہور و معروف شہر علی گڑھ سے ہے جو صوبہ اترپردیش میں آتا ہے ابتدائی تعلیم کا آغاز مدرسے سے ہوا۔ مدرسہ تعمیر ملت دودھ پور علی گڑھ سے حفظ قرآن کیا اسکےبعدمدرسہ معاذ بن جبل علی گڑھ سے تجوید اور ابتدائی عالیمت کی تعلیم حاصل کی۔فضیلت جامعہ دینیات اردو دیو بند کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے
Diploma in quranic study
اس کے بعد مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے بی۔اے اردو کیا اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔اے اردو کیا۔
پھر جامعہ اردو علی گڑھ سے معلم اردو کی سند حاصل کی فی الحال مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد بی ایڈ کے طالب علم ہیں.
شاعری پڑھنے کا شوق تھا کرنے کا نہیں لیکن ایک بار حقیقی چاچا ڈاکٹر شہرام سرمدی کی نظمیں پڑھ کر ایسی کیفیت ہوئ کہ پھر شاعری سلسلہ چل نکلا..
شاعری میں ان کے دو استاد رہے اول خالد ندیم فاروقی جنہوں نے انہیں شاعری کی بنیادی اصول سے واقفیت کرائی دوم ان کے حقیقی چاچا ڈاکٹر شہرام سرمدی جنہوں نے انہیں علم عروض سکھایا ۔ کوئی ایک شاعر نہیں ہے جس کو خاص طور پر پسند کرتےہوں البتہ مرزا غالب کو بڑا شاعر مانتےہیں۔
کیونکہ غالب وہ شاعر ہیں جن کو اردو زبان اگر ختم بھی ہوجائے تب بھی اسی طرح پڑھا جائے جیسے آج پڑھا جاتا ہے. یہ ان کی ذاتی رائے کوئی حتمی فیصلہ نہیں
ہم عصر شعراء بہت سےہیں جو بہت اچھی شاعری کرتے ہیں جیسے اظہر نواز ریسرچ اسکالر شعبہ انگریزی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، سیف عرفان ریسرچ اسکالر شعبہ بوٹنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شمامہ افق (راولپنڈی) عمیر نجمی پاکستان،،محمد افضل خان ریسرچ اسکالر شعبہ اردو علی گڑھ مسلم.. خیرالدین اعظم ریسرچ اسکار شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی.. عمران عامی راولپنڈی پاکستان، افکار علوی.. پاکستان.. اشک الماس ایم ٹیک طالب علم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی.. علی رضا اسیر.. ریسرچ اسکالر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وغیرہ
اس کے علاوہ وہ عہد جدید کے شاعر جن کے یہاں بہت وسعت اور گہرائی ہے...
ڈاکٹر شہرام سرمدی،،امیر حمزہ ثاقب.. شاہد کمال ،، وفا نقوی ،،عمیر نجمی.. امیر امام.. احمد سلمان.. پاکستان.. ڈاکٹر معید رشیدی.. وغیرہ آتے ہیں۔
شاعری کے علاوہ وہ افسانے زیادہ لکھتے ہیں.. صدیقی، شاریہ، وہ افسانہ،، عزت دار لوگ ،،شرک ،،جمال ،،ان کے افسانے ہیں۔
غزل
رویہ کافی کچھ بدلا ہوا ہے آسمانوں کا
مگر نقشہ وہی ہے اب کے بھی خالی مکانوں کا
وہی اک قصہ اب تک دھیان میں روشن نہیں ہوتا
تسلسل جس سے وابستہ ہے پچھلی داستانوں کا
ادھر سے بھی کسی آواز کی آمد نہیں ممکن
ادھر بھی زاویہ بدلا ہوا ہے اپنے کانوں کا
بہت خوش رنگ تھی پرواز ان خاموش بانہوں کی
جہاں بھی حوصلہ درکار تھا اوچی اڑانوں کا
کہ جن کے ہونے سے رنگین تھے اوراق خوشیوں کے
بیاضِ درد میں آیا ہے ذکر ان مہربانوں کا
عبد المنان صمدی
....
غزل
اس شہر میں تو کچھ بھی پرانا نہیں رہا
سب کچھ بدل گیا وہ زمانہ نہیں رہا
ایسا نہیں کہ تجھ سے محبت نہیں مگر
پچھلی سی دل لگی کا زمانہ نہیں رہا
جتنے بھی تھے دوانے سبھی کوچ کر گئے
اب شہر. میں کوئی بھی دوانہ نہیں رہا
اس کو بھی لگ گئی ہے نظر اب خزاؤں کی
جنگل کا یار موسم سہانا نہیں رہا
اس کے بدن کو میں نے کہاں چھیڑا اسقدر
جو اس میں یار کچھ بھی پرانا نہیں رہا
عبد المنان صمدی
.....
غزل
ہے جس کی منتظر آنکھیں وہی آیا نہیں اب تک
وہ جب آئے گا دیکھے گے سجاتے ہیں یہ گھر تب تک
سحر ہوتے ہی وہ مجھ سے جدا ہوجاتا ہے یارو
وہ میرے ساتھ رہتا ہے اکیلے میں فقط شب تک
بظاہر مختصر سا یہ سفر معلوم ہوتا ہے
مگر مدت میں پہچا ہوں مری جاں چشمہ لب تک
تمہیں گر عشق کرنا ہے یہاں سے پھر چلی جاؤ
محبت بین ہے لڑکی ہمارے شہر میں اب تک
قلم ہے زنگ آلودہ زباں بھی کچھ نہیں کہتی
وہ اپنی بات پہنچائے بھلا کیسے مخاطب تک
عبدالمنان صمدی
....
غزل
جب لکھو کچھ عشق کے عنوان سے
شعر کچھ ہوں میر کے دیوان سے
شیخ جی جنت کی دعوت کس لیے
جب الجھنا ہے ہمیں دربان سے
کھڑکیاں سب بند ہیں تم دیکھ لو
روشنی آئ ہے روشن دان سے
جانوروں سے بھی برے حالات ہیں
اب نہیں اشرف بشر حیوان سے
دیکھنا ہے اب یہی بس بابری
کب ملے انصاف اس ایوان سے
عبد المنان صمدی
...
غزل
جب لکھو کچھ عشق کے عنوان سے
شعر کچھ ہوں میر کے دیوان سے
شیخ جی جنت کی دعوت کس لیے
جب الجھنا ہے ہمیں دربان سے
کھڑکیاں سب بند ہیں تم دیکھ لو
روشنی آئ ہے روشن دان سے
جانوروں سے بھی برے حالات ہیں
اب نہیں اشرف بشر حیوان سے
دیکھنا ہے اب یہی بس بابری
کب ملے انصاف اس ایوان سے
عبد المنان صمدی
....
غزل
وہ مرے نزدیک آیا پر قریں آیا نہیں
اس کو میری ذات پر اب تک یقیں آیا نہیں
جو مکاں خالی تھا دل کا اب تلک وہ بھر گیا
جس کی لیکن تھی تمنا وہ مکیں آیا نہیں
آج جس کے واسطے گھر کو سجایا ہے بہت
دیکھنا دروازے پر وہ تو کہیں آیا نہیں
بے وجہ کا ہے گلہ یہ بے وجہ کی بات ہے
میں بلانے پر تمہارے کیا کہیں آیا نہیں
بے خیالی میں بدن پر ہاتھ اس کے رکھ دیا
اور پھر وہ جان کر میرے قریب آیا نہیں
عبد المنان صمدی
دلچسپ واقعے کے بارے میں سوال کیا تو کچھ اس طرح جواب دیا ؛بہت سے واقعات ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور افسردہ کرنے والے بھی.. کس کس کا ذکر کروں ایک واقعہ تو نہیں لیکن ایک حادثہ ایسا ہے جو ذہن سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا..
23/سمتبر 2016 بروز جمعہ کو ان کی چھوٹی بہن ذکیہ فاطمہ کا محض15 دن میں بیماری کے سبب انتقال ہوگیا. اس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سےایم۔اے (اکنامکس) کیا تھا ۔ مولانا طارق جمیل صاحب سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے شاعری کی صنف کا انتخاب کیوں کیا تو بڑا دلچسپ جواب دیا" میں نے شاعری کا نہیں شاعری نے میرا انتخاب کیا ہے ۔"
بہت عمدہ... خوبصورت تحریر ایک خوبصورت دل والے شاعر و افسانہ نگار کے لیے. سلامت رہیں.
جواب دیںحذف کریںشکریہ!
جواب دیںحذف کریںدرست فرمایا