نوجوان شاعر محمد راغب

 نوجوان شاعر محمد راغب


سوال نمبر ا:آپ کا پورا نام کیا ہے؟

جواب:محمد راغب

سوال نمبر 2: آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟

جواب: انڈیا یو پی شہر مظفر نگر خاص شہر سے۔

سوال نمبر 3: آپ کی تعلیم کیا ہے ؟

جواب :پانچ جماعتیں ہی پڑھ سکا۔

سوال نمبر 4: آپ کو شاعری کا شوق کب ہوا؟

جواب:بارہ برس کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا جب کسی کے عشق میں گرفتار ہوا  شاعری میں نکھار اس  کی وجہ بھی اسی شخص کی بے وفائی بنی۔

سوال نمبر 5:شاعری میں آپ کے استاد کون ہیں؟

جواب :کوئی استاد نہیں خدا کے سوا۔

استاد مجھے مرے حساب کا نہ مل سکا اسی لیے میں خدا کو یہ مقام دیتا ہوں کہ جو وہ مجھ سے کہلوادے شعر غزل قطع نظم۔

سوال نمبر 6:کون سے شاعر کو پسند کرتے ہیں؟

جواب: ساغر صدیقی۔

سوال نمبر 7:اور کیوں پسند کرتے ہیں؟

جواب:پسند اس وجہ سے ہیں کہ جو گھمبیرتا میری شاعری میں ہے وہی ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔

سوال نمبر 8:اپنے ہم عصر شعراء میں کون سے شاعر کو پسند کرتے ہیں؟

جواب:ہم عصر شعراء میں میری نظر میں کوئی نہیں۔

سوال نمبر 9:شاعری کے علاوہ کسی اور صنف ادب پر قلم اٹھایا؟

جواب:میں ادنیٰ سا نقّاد بھی ہوں جو شاعر شاعری کے ذریعے برائی پھیلا رہے ہیں ان پر تنقید بھی کرتا ہوں۔

سوال نمبر 10:اپنا پسندیدہ کلام سنائیے؟

جواب:مجھے اپنا تمام کلام پسند ہے۔

سوال نمبر 11:اپنی زندگی کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ بیان کریں؟

جواب: کمسنی ہی میں عشق میں گرفتار ہوا اس شخص نے اللہ کو گواہ بنا کر ساتھ جینے اور مرنے کی قسم کھائیں اور یقین دلایا کہ اس کی محبت سچی ہے مگر تین سال بعد یہ راز مجھ پر کھل گیا یا کہ وہ کسی اور کے عشق میں گرفتار ہے اور جلد ہی کسی کی ہونے والی  ہے اس کو آزمانے کے لیے میں اپنے پاس موجود رقم لے کر اس کے پاس پہنچا اور اس سے کہا کہ میرے ساتھ چلو اس نے صاف منع کر دیا اور خوشی خوشی اپنے ہونے والے شریک حیات کے بارے میں باتیں کرنے لگی مجھے شدید صدمہ ہوا میں خود کو سنبھال نہیں پایا اور میں وہاں سے چلا آیا۔

سوال نمبر 12:کوئی ایسی شخصیت جس سے ملنے کی خواہش ہو؟

جواب: ایک پاکستانی دوست راجزودوان سے ملنے کی خواہش ہے۔

سوال نمبر 13:آپ نے شاعری ہی کا انتخاب کیوں کیا؟

جواب:شاعری میرا فن ہے جو کسی کی بے وفائی پر قدرت نے مجھے عطا کیا اس لئے میں اپنی بات شاعری میں کرنا پسند کرتا ہوں اس لیے انتخاب کیا میں درد لکھتا ہوں دنیا غزل سمجھتی ہے۔

سوال نمبر:14:آپ کے خیال میں آپ کی شاعری میں کیا انفرادیت ہے؟

جواب:میری شاعری میری عمر سے بڑی ہے کم عمری میں 80 سال کے شاعر کی شاعری والی پختگی ہے اک نیا چلن ہے  میری شاعری میں میری فکر ہے جو اک اچھے شاعر کی زندگی میں ہونی چاہیے۔

 یہ تھیں نوجوان شاعر محمد راغب کی زندگی کے متعلق کچھ باتیں۔یہ سچ ہے کہ شاعری میں نکھار عشق میں چوٹ کھانے سے ہی آتا ہے ایسا ہی کچھ ان کے ساتھ بھی ہوا وہ درد انہوں نے دل کی گہرائی میں محسوس کیا اور خوب صورت لفظوں کے پیرائے میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کیا ایک شاعر کے لیے حساس ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ حساسیت ہی اسے دیگر لوگوں سے الگ مقام عطا کرتی ہے۔یہ تھیں کچھ خوب صورت باتیں اور اب ہم ان کے کلام کا پڑھتے ہیں پیش خدمت ہے:



میرے جیسے ہی پریشناں بے وفا جا تُو رہے

 ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا آنکھ میں آنسو رہے 


خواہشوں کی آگ میں جلتا ہوا محروم دل 

حشر تک پھیلی ہوئی اس کی فضا میں بُو رہے 


خشک آنسو ہو گئے ہیں ضبط بھی ٹوٹا ہے آج 

خون اگلتی آنکھوں پر پھر کس طرح قابو رہے 


جان لیوا درد راغب کر گیا ہے اپنا کام 

کب تلک بیمار کے ہونٹوں پہ پھر ہاہو رہے 


(راغب)

اس سے بڑھ کر کہیگا کیا کوئی 

ہوگا تم سا نہ خوشنما کوئی 


جب سے دل میں تمہیں بسایا ہے 

گھر میں آیا نہ دوسرا کوئی 


خود کو تنہا کبھی نہ دیکھا تھا 

ہائے کیا دن دکھا گیا کوئی 


ہم کو ہر دم یہ غم رلاتا ہے 

جب بچھڑنا تھا کیوں ملا کوئی 


اپنی بربادیوں پہ ہنستا ہے 

ہوگا مجھ سا ہی دل جلا کوئی 


(راغب)


کتنا رویا ہوں میں کل رات تمہیں کیا معلوم 

رات کے ساتھ گئی بات تمہیں کیا معلوم 


وہ جو کہتا تھا اسے پیار فقط مجھ سے ہے 

کیا کِیا اس نے مرے ساتھ تمہیں کیا معلوم 


چاہتا ہوں میں بہت اس کو بھلا دوں لیکن 

دل نہیں سنتا مری بات تمہیں کیا معلوم 


بے سبب روٹھ کر اسکا وہ جدا ہو جانا 

کیسے بگڑے مرے حالات تمہیں کیا معلوم 


سن کے  اسکی ہی مجھے تم جو غلط کہتے ہو 

تم نہیں جانتے ہر بات تمہیں کیا معلوم 


راغب


عشق میں زہر کھانے سے کیا فائدہ 

دل ہی دو جاں گوانے سے کیا فائدہ 


ہو سکے تو مرا چاند لا دو مجھے 

چاندنی گھر میں لانے سے کیا فائدہ 


مجھ کو معلوم ہے صرف پتھر ہو تم 

تم کو اپنی سنانے سے کیا فائدہ 



جب کوئی اور ہے رند تیرا تو پھر 

تجھ سے نظرے ملانے سے کیا فائدہ 


جب مرے دل کی دنیا سلامت نہیں 

پھر کوئی گھر بسانے سے کیا فائدہ 


اب نا دیکھیں گے راغب کسی کی طرف 

چوٹ پر چوٹ کھانے سے کیا فائدہ 


(راغب)


خوشی اچّھی نہیں لگتی ہنسی اچھی نہیں لگتی 

تمہارے بعد مجھ کو زندگی اچھی نہیں لگتی 



وہ جس دن ساتھ رہتے تھے وہ دن تیوہار لگتا تھا 

مگر جب سے وہ بچھڑے عید بھی اچھی نہیں لگتی 


ہیں لب خاموش ماتھے پر شکن اب مان بھی جاؤ 

حسیں چہرے پہ یہ ناراضگی اچھی نہیں لگتی 



کرو کچھ تم تو پھر ہم بھی کریں کچھ ذکر الفت کا 

جہاں دو شخص ہوں پھر خامشی اچھی نہیں لگتی 


میں اکثر ڈال دیتا ہوں تمہارا نام غزلوں میں 

نہ ہوں غزلوں میں تم تو شاعری اچھی نہیں لگتی 


(راغب)


. . . . . . غزل 


ستمگر آخری دیدار کر لے 

میں تیری زندگی سے جا رہا ہوں 


یوں ہونے کو تو ہو جاتا تو بدنام 

ہمیشہ میں ترا پردہ رہا ہوں 


بچھڑ کر ٹھیک ہوں یہ مت سمجھنا 

میں اس دل کو بہت سمجھا رہا ہوں 


وہ کتنا بے وفا ہے پوچھئے مت 

میں اپنے . آپ پر شرما رہا ہوں 



تُو پل بھر یاد کر کے دیکھ ماضی 

بہت دن میں ترا اپنا رہا ہوں 


کبھی کی دیکھ لی راغب یہ دنیا 

میں ساری زندگی روتا رہا ہوں 


راغب 


 . . . . . . غزل 

اٙنسُنی  اُسنے  اس قدر کر دی 

میری آواز بے اثر کر دی 


مفلسی کیا بلا ہے مت پوچھو 

ہر تمنّا اِدھر اُدھر کر دی 


کل کچھ پل وہ دیر سے آئے 

یوں لگا زندگی بسر کر دی 


دفن اک میری آرزو اسنے 

اپنے چہرے کو ڈھاپ کر کر دی 


انکی آنکھیں بھی جُھک گئیں راغب 

بات ہم نے بھی در گزر کر دی 


راغب


 . . . . . . غزل 

پوچھ مت انکو میں کس دھن میں مگن دیکھتا ہوں 

چیخنے والوں کی چیخوں میں گھٹن دیکھتا ہوں 



دفعتاً بجھ گیا جلتا ہوا پھر کوئی چراغ 

چوڑیاں توڑتی پھر کوئی دلہن دیکھتا ہوں 


جانے کس حال میں رہتے تھے ان آنکھوں کے مکیں 

خون اگلتی ہوئی آنکھوں میں چبھن دیکھتا ہوں 



نام سے تم کو غرض ہوگی مجھے کام سے ہے 

میں تخلص نہیں شاعر کا سخن دیکھتا ہوں 



لکھ کے اشعار وه پنّے الٹنا مت پوچھ 

پیدا ہوتے ہی میں بچوں پہ کفن دیکھتا ہوں 


راغب


 . . . . . . غزل 

نہ ہو مایوس تو بھی دشت مایوسی سے نکلےگا 

تری قسمت کا تارہ بھی کبھی پستی سے نکلےگا 


جلا کر راکھ کر دونگا تری ہستی مرے دشمن 

اگر  اک بھی  جنازہ اب مری بستی سے نکلےگا 


میں جا کر آستاں پر آسماں کے دستکیں کیوں دوں 

مجھے معلوم ہے سونا فقط دھرتی سے نکلےگا 


مجھے اس کا نہیں ہے غم کہ تن سے روح نکلے گی 

مجھے غم ہے ترا تحفہ مری انگلی سے نکلے گا 


چلے ہیں وہ جو زلفیں کھولنے کو  آج  پھر راغب 

 گھٹا کا سلسله کھلتی ہوئی چوٹی سے نکلےگا


راغب 


 . . . . . . غزل 

بھنور کے سامنے میری کوئی مرضی نہیں چلتی

 چلاتا ہوں میں پتواریں مگر کشتی نہیں چلتی


 کسی کے عشق نے حیوان سے انساں بنا ڈالا 

مرے ہاتھوں سے اب دشمن پہ بھی گولی نہیں چلتی


 اڑا دے گردِ نفرت جو ہر اک انسان کے دل سے

 خدا میرے وطن میں کیوں ہوا ایسی نہیں چلتی


 امیرِ شہر سے ٹکرا رہا تو ہے تو اے مفلس 

مگر پستول کے آگے کبھی لاٹھی نہیں چلتی


 پڑیگی پھر سے میری ہی ضرورت یوں نہ ٹھکراؤ

 کبھی بھی ایک پہئے پر کوئی گاڑی نہیں چلتی


 جہاں قانون ہی راغب امیروں کی طوائف ہو

 وہاں پر کوئی بھی مرضی غریبوں کی نہیں چلتی 


راغب


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نوجوان مصنفہ مہر یکتا کا تعارف

خیر الدین اعظم کا تعارف اور شاعری

نوجوان نسل کے شاعر عبدالمنان صمدی