نوجوان نسل کے شعرا ء

 نوجوان نسل کے شعراء کا تعارف اور کلام

آج میں جس شخصیت کا تعارف پیش کرنے جا رہی ہوں ہو ں ان کا تعلق نئی نسل سے ہےاور ان کا کلام قابل ستائش ہے۔ایسے بے شمار ہیرے پاکستان میں پوشیدہ ہیں جو اردو کی ترقی اور ترویج کے لئے خاموشی سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں انہی میں سے ایک نام عامر سہیل کا بھی ہے جن کا تعارف اور کلام میں پیش کرنے جا رہی ہو ں۔


تعارف

 

نام۔۔۔عامر سہیل

تعلیم ۔۔ایم اے۔۔بی ایڈ

پیشہ۔۔۔تدریس 

اصناف جس پہ قلم آزمائی کی۔۔۔۔شاعری، کالم، کہانی، افسانہ

مختلف اخبارات اور جرائد میں بیسیوں چیزیں چھپ چکیں ہیں۔

رہائش۔۔۔ملتان کے قریب نواحی علاقے مخدوم رشید سے تعلق ہے۔

جب میں نے ان کے کلام کو سننے کی خواہش کا اظہار کیا تو سب سے پہلے انہوں نے نعت رسول مقبول سنا کر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اپنی دلی عقیدت و دلی لگاؤ کا ثبوت دیا۔



نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 


"نبی کی یاد کو پلکوں نے باندھ رکھا ہے "


کہ اُن کے ورد کو سانسوں نے باندھ رکھا ہے 


نہ جانے ٹوٹ کے کب سے بکھر گیا ہوتا


مجھے حضور کے ہاتھوں نے باندھ رکھا ہے 


متاع و مال کے طالب نہ عیش و عشرت کے


ہمیں مدینے کی چاہوں نے باندھ رکھا ہے 


دعا میں واسطہ جب سے دیا ہے احمد کا


مرے چمن کو بہاروں نے باندھ رکھا ہے 


نبی کے شہر کو جب سے ہے الوداع کہا


نمی کا سلسلہ آنکھوں نے باندھ رکھا ہے 


میں حاضری درِ آقا پہ دینا چاہوں مگر


مجھے زمانے کی راہوں نے باندھ رکھا ہے



نظم"آسِ وصل"


ازقلم۔۔۔۔عامر سُہیل


دیکھو یہ نفسا نفسی 

عالمِ کشاکشی 

ہنگامئے ہائے ہُو

فکرِ معاش و آلامِ روزگار 

شورشِ زمانہ

منافقتِ دوستاں

عداوتِ دشمناں

دنوں کے گمان

شبوں کے رتجگے

پَل پَل کی بے چینی

لمحے لمحے کی بے قراری 

اور پھر

اوپر سے یاد تمہاری 

یہ سب محرکات 

یہ سب محرکات ہیں 

جنہوں نے

تُم تک مری رسائی نہ ہونے دی

ملن کی راہیں مسدود کر دیں 

اور تُم 

کہ مجھے بہانہ جُو سمجھے

 نہیں، نہیں واللہ ایسا کچھ نہیں 

مجھے بھی آسِ وصل ہے تمہاری بابت

اور اس آس کی شدت

تمہاری نسبت بہت زیادہ ہے

بہت زیادہ


نظم"وہ چاند کی دیوانی لڑکی"


ازقلم۔۔۔۔۔عامر سُہیل


وہ چاند کی دیوانی لڑکی

ہر شب مجھ سے کہتی رہتی ہے 

دیکھو نا تُم چاند کی جانب

ہے کتنا پیارا دِکھتا آج

ہے آنکھ میں دیکھو ٹِکتا آج

میں بھی اُس کی اِن باتوں سے 

لطف اٹھاتا رہتا ہوں 

میں بھی اُس کے سنگ سنگ یارو

جی بہلاتا رہتا ہوں 

میں بھی اُس سے کہتا رہتا ہوں 

دیکھو نا تم اپنی مورت

ہے چاند سے پیاری تیری صورت

پھر وہ پاگل کہتی ہے مجھ سے

تُم یہ مجھے دِکھلا سکتے ہو

چاند کو نیچے لا سکتے ہو

یا تُم چاند کو نیچے موڑو

یا پھر یہ کہنا چھوڑو

کہ میں بھی ہوں چندا کے جیسی

ہے میری بھی صورت ویسی

یہ سب وقتی جنون ہے پیارے

ورنہ ایسا قانون ہے پیارے؟ 

ہے ساری بات جو ایسے ٹھہری

میں چاند کے جیسی کیسے ٹھہری


نظم"خدارا، خود بچا لو نا"


ازقلم۔۔۔۔عامر سُہیل


چھوڑ کر کدورت تُم

ذرا سا مسکرا دو نا

وداع کہہ کر عداوت کو

نفرت کو بُھلا دو نا


انہی سب عنادوں نے 

فقط غم ہی غم بانٹا

ظلمت چھوڑ کر تُم اب

امن سر پہ اوڑھا دو نا


یہ دیپ جو جلائے ہیں 

دیکھو تُم نے دہشت کے

آشتی کی پھونک سے تُم

انہیں اب بجھا دو نا


بدل دو اپنی سوچوں کو 

ظلم کے اِس نظریے کو 

دیکھو تُم گمانوں کو

راہ سیدھی لگا دو نا


ملا ہے کیا اِس نفرت سے

سوا دل میں دراڑوں کے

مٹا دو اِس تفاوت کو 

الفت کو بڑھا دو نا


کیوں بھٹکتے پھرتے ہو 

نادانوں اپنی منزل سے

اب بھی گھڑیاں باقی ہیں 

خدارا! خود بچا لو نا


نظم"آزادی مبارک "


ازقلم۔۔۔۔عامر سُہیل


ہم  پہ  یہ  احسان  کیا

پیارا  پاکستان  دیا


رکھتا  تھا  وہ  جسدِ  خاکی

لیکن  وہ  تھا  مرد    آفاقی 


یہ  جو     آج  آزاد     ہیں  ہم

اُن  کی وجہ سے شاد ہیں ہم


ہیں  اُن  کے  فرامین  عظیم 

ایمان       اتحاد         تنظیم 


سچ  کے  ہم  عناں  تھا  وہ

جرا۶ت  کی پہچاں تھا وہ 


یہ  پیاری   آزادی  کی   دولت

ہم  کو ملی  ہے ان کی بدولت 


ہے   بہت   پیاری  مادرِ  گیتی

ہے  جان  سے پیاری مادرِ گیتی


گر  ہم  کو  پاکستان  نہ  ملتا

ہر اک  چہرہ   یوں  نہ   کھلتا


رہ  جاتے  ہم  سدا  محروم

بدلا  نہ ہوتا     یہ  مقسوم


اِس  کے  کھیت کھلیان کی خیر

اِس  کے   ہر  انسان  کی  خیر


یہ  نصرت  کامیابی  مبارک

ہو  سب  کو  آزادی  مبارک


نظم"یادیں"

ازقلم۔۔۔۔عامر سُہیل

ہم نے جس کو اپنا جانا

نکلا ہے وہ شخص بیگانہ

جس کو دل کا راز بتایا

اُس نے سب کو کہہ سنایا

ہم کو اب سکون کہاں ہے 

غیروں کا وہ ہم عناں ہے 

کر مجھ کو رسوا چھوڑا ہے 

یوں اُس نے دل کو توڑا ہے 

آہ! اُس کو پہچان سکا نہ

اُس کی ہستی جان سکا نہ

خود سے ہوں شرمندہ سا میں 

ہو کر مردہ زندہ سا میں 

مجھ کو جس پہ مان بڑا تھا

پیارا وہ انسان بڑا تھا

رہتا اُس کا دھیان بڑا تھا

میں اُس پہ قربان بڑا تھا

پیار کیا تھا جھوٹا مجھ کو

دونوں ہاتھوں سے لوٹا مجھ کو

یادیں اُس کی آتی رہتی ہیں 

جاں مری کھاتی رہتی ہیں 

روتا ہوں میں زار و زاری 

رہتی ہے بس بے قراری


نظم۔۔۔"بے نشاں"


ازقلم۔۔۔۔عامر سُہیل


رات میں نے آسمان پر

بہت سے ستارے دیکھے

چمکتے دمکتے ستارے

ٹمٹاتے، جھلملاتے ستارے

پیارے پیارے 

دِل لبھاتے ستارے

میں نے بھی خود کو

ایک ستارہ فرض کیا 

اور اُسے چمکتے دیکھ

بڑا شاداں ہوا

بہت کچھ جی میں آیا

میں مُسکرایا

من لبھایا

مگر پھر یوں ہوا!!!! 

کہ ابر کے اِک ٹکڑے نے

ستارے کے روبرو آ کر

اُسے مری نگاہوں سے 

اوجھل کر دیا

تب مجھے باور ہوا

احساس ہوا

کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اپنی ہستی 

کھو دینے کا غم کیا ہوتا ہے؟ 

پھر اچانک۔۔۔۔

وہ ستارا 

جانبِ زمیں گِرا

میں پرجوش ہوئے دوڑا

چمک کی طرف 

دمک کی طرف 

اُس جگہ کی سمت

جہاں میرا گماں تھا کہ 

ستارا گِر گیا شاید

مگر صد افسوس 

اُس جاہ کچھ نہ تھا

ستارا ندارد

میں وہی یاس زدہ محوِ سوچ ہوا

کہ یوں درمیاں میں لٹکے رہنا

کتنا عجیب ہوتا ہے 

یہ دوغلے ہونا 

کتنا عجیب ہے 

نہ آسمان کا رہا 

نہ زمیں کا

بس بے نشاں

نہ کہیں کا


🌷🌷صبح بخیر 🌷🌷


میں اکثر کُنجِ تنہائی میں بیٹھا سوچتا ہوں 

اس زمانے کی باتیں

جب وصال نے 

ہجر کا لبادہ نہ اوڑھا تھا 

جذبات کی فراوانی 

مُردنیِ جوش میں نہ بدلی تھی

جب محبت کے تازہ شگوفے

ہمارے قلوب میں پھوٹے تھے 

جب ہمارے تصورات میں 

ایک دوسرے کی تصویریں رَقصاں تھیں 

ایک پَل کی جدائی بھی

مثلِ بِسمل ہوا کرتی تھی 

جب ہمارے پاؤں 

رسموں کی بیڑیوں میں نہ جکڑے تھے

رَفاقتیں اپنے جوبن پر تھیں 

جب نئے نئے خیالات 

ہمارے وَجدان میں گُدگُداتے تھے

دونوں کو ایک دوسرے کے مِزاج کا اِدراک تھا 

جب ہمارا رشتہ خَالصِیت کے

آہنی حَصار میں مُقیّد تھا 

اِن لمحات کی یاد، آج بھی 

چند پل کی شادمانی کا سامان ہے


تحریر ۔۔۔۔عامر سہیل



دس لفظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دس باتیں


تحریر۔۔۔عامر سہیل


1.....آسودگی۔۔۔راحت اور آسودگی اُس بشر کا مقدر ٹھہرتی ہیں جو ضمیر کی پکار پر لبیک کہنے والا ہوتا ہے جو قلبی خواہشات کی جی حضوری کرے اُسے کبھی سکون کی متاع حاصل نہیں ہوتی


2۔۔دل جمعی ۔۔۔جس کام کو بھی سر انجام دینے کا تہیہ کر لیں پھر اُسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے دل جمعی کے ساتھ اُس میں منہمک ہو جائیں اور اس سے بیزاری کا ثبوت نہ دیں 


3..ہنس مکھ۔۔۔۔۔ایک ہنس مکھ انسان کی خلقت گرویدہ ہوتی ہے، ہمہ وقت کرخت لہجہ رکھنے والے انسان سے کوئی ملاقات کا متمنی نہیں ہوتا اس سے لوگ دامن چھڑانے کو ہی اپنے حق میں بہتر گردانتے ہیں 


4...منفی پہلو۔۔۔۔ہر بات میں منفی پہلو نکالنے والا شخص خود تو نفسیاتی مریض بنتا ہی ہے مگر اُس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کی بھلی ذات پر بھی اپنی منفی سوچ کی بنا پر قدغن لگا دیتا ہے 


5...مضر۔۔۔خبردار، مایوسی کو اپنے قریب بھی نہ بھٹکنے دیں کیونکہ یہ ایک ایسا محرک ہے جو ہماری ذات کی جڑیں کھوکھلی کر کے اسے دھڑام سے گراتا ہے، مایوسی اصل میں نا کامی کی جنم بھومی ہے 


6...ترش روئی۔۔۔۔کوشش کریں کہ اپنے لہجے میں اور الفاظ میں ایک رس اور مٹھاس گھولیں اگر اُس میں ترش روئی کو جگہ دیں گے تو بشریت ہم سے کٹی کٹی ملے گی


7...ناگزیر ۔۔۔زیست میں کامیاب اور سرفراز ہونے کیلئے ایک جوش، ولولہ اور منزل کی سچی اور کھری جستجو ناگزیر ہے کیونکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کی منزل تک رسائی کو یقینی بناتے ہیں 


8...دقت۔۔۔۔یہ زندگی ہے، مشکلات و دقتیں اس کا خاصہ ہیں عین اسی طرح جس طرح شادمانیاں و خوشیاں اس میں شامل ہیں، اس لیے ہر طرح کے حالات کا سامنا  کرنے کا فن اپنی ذات میں پیدا کریں ورنہ کافی مشکلات سے دوچار رہنا پڑے گا 


9...شغف۔۔۔اپنی ذات کے اندر اچھا سے اچھا کرنے کا شغف پیدا کریں اور نئی نئی جہتوں کی جستجو میں مگن رہیں پھر دیکھیں کس طرح مشکل سے مشکل عقدے وا ہو جائیں گے 


10...مرغوب۔۔۔دوسروں کی ذات کو اذیت میں گھرا دیکھ کر اس پر تماشائی کا کردار ادا کرنا ہمارا مرغوب مشغلہ بن چکا ہے مگر ہمارے لیے مشکل اس وقت کھڑی ہوتی ہے جب دوسرے ہمیں بھی تنگی اور اذیت میں تن تنہا چھوڑ دیتے ہیں


تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

if you want to ask something feel free to ask.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نوجوان مصنفہ مہر یکتا کا تعارف

خیر الدین اعظم کا تعارف اور شاعری

نوجوان نسل کے شاعر عبدالمنان صمدی