فخر قوم از عامر سہیل
فخر قوم (افسانہ)
رضا نے جب سے ہوش سنبھالا گھریلو حالات دگرگوں ہی دیکھے،مگر اس میں مثبت بات یہ تھی کہ وہ کبھی دلبرداشتہ نہیں ہوا، ان حالات سے کبھی شکستہ قلبی کا مظاہرہ نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی بیزار یا دق ہوا،وہ اپنے اندر امید اور کچھ کرنے کی جوت جگاتا رہتا، وہ ہمیش یہی کہتا کہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والا ہی اُس پار منزل پہ اترتا ہے اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے ہمیشہ گردِ راہ رُل جاتے ہیں اور زیست میں کبھی بھی یاد نہیں رکھے جاتے، جمود و سکوت اُس کیلئے ایک مانع چیز تھی اور وہ اِسے اپنے قرب و جوار میں نہ بھٹکنے دیتا وہ تو جہدِ مسلسل پر اعتقاد رکھتا تھا اور اِسی سے کام لے کر جیون کو صراطِ مستقیم پر چلاتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتا تھا، گردشِ ایام اور غمِ دوراں پر کبھی اُس کی گریہ وزاری نہ سنی، چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ اور شادابی ملتی اور سب کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتا، اُس کے ابو پورا دن دوسروں کے کھیتوں میں کام کرتے اور شام کو کھانے کا کوئی بندوبست کرتے ،کبھی کبھی خرابی صحت یا خرابی موسم کی وجہ سے بات فاقوں کی نوبت تک پہنچ جاتی، مگر یہ لوگ بڑے صبر و شکر کرتےاور اس میں بھی اللہ کی حکمت گردانتے، کیونکہ انہی یہ امر بخوبی باور تھا کہ سب کچھ مالکِ لم یزل کی منشا سے ہوتا ہے اور وہی غریب یا غنی بنانے کا بھید بھی بخوبی جانتا ہے اس کے فیصلوں سے کس کو مفر ہے، اُس کی امی بھی گھر کے کام سے فراغت کے بعد چوہدری صاحب کے آشیاں میں کام کرنی چلی جاتیں، رضا خود سکول سے چھٹی کے بعد پھل بیچتا اور سکول کے اخراجات برداشت کرتا،ان لوگوں کی زندگی بس انہیں امور تک موقوف تھی، وہ فانوس خیال کے بجائے ہاتھ پاؤں ہلا کر روزی کمانے کی منطق پر یقین رکھتے تھے، مشقت ان کی جبلت میں پڑی تھی، اس خاندان میں ایک عادت بہت اچھی تھی کہ یہ فضول خرچی نہ کرتے کبھی اپنے وسائل سے متجاوز ہو کر نہیں سوچا، شاید اسی واسطے اس مشقت آمیز زندگانی میں بھی مطمئن تھے، محنت سے رضا کو بھی بہت موانست تھی اُسے پڑھنے کا حد درجہ شوق تھا اور جب اساتذہ اُس سے مستقبل کے بارے استفسار کرتے تو اُس کا یہی جواب ہوتا کہ "سر میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا اور ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ سر انجام دوں گا "محنتِ شاقہ اور پڑھائی کی مودت کے توسط سے اس نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کی اور اپنے ضلعے میں اول پوزیشن حاصل کی جس کی بنا پر ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے اسے کالج میں داخلہ دلا دیا اور تمام اخراجات بھی برداشت کرنے کا عہد کیا، انٹرمیڈیٹ میں بھی وہ اپنے صوبے میں سب پر سبقت لے گیا اور پھر انٹری ٹیسٹ میں سب کو پچھاڑتا ہوا میڈیکل کالج میں داخلے کیلئے سلیکٹ ہو گیا، اُس کے ماں باپ اور اہلِ محلہ کی خوشی کی انتہا نہ تھی، اُس کے خاندان کے لئے یہ بات کسی سے معجزے سے کم نہ تھی کیونکہ اُس کے خاندان میں کسی نے میٹرک سے آگے تعلیم حاصل نہیں کی تھی، یہ ان کے لیے نوید تھی کہ ان کے خاندان سے انہی کا لختِ جگر ڈاکٹر بننے جا رہا تھا، وقت کب رکتا ہے بھلا یہ تو برق رفتاری سے گامزن ہے اور یہی ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے خلوصِ نیت سے کام کرتے ہوئے رضا ایک بڑا ڈاکٹر بن گیا ،اُس نے اپنی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو مات دے دی اور کامیابی کی قدم بوسی اس کا نصیباں ٹھہری، رضا شروع دن سے ہی مودب اور احترام کرنے والا تھا اور ڈاکٹری کی مسند پر براجمان ہونے کے بعد بھی اُس کی عاجزی و انکساری میں چنداں فرق نہ آیا، لوگ حیران تھے کہ دورِ حاضر میں ایک ہلکی سی نوکری بھی مل جائے تو لوگوں کی گردن میں جیسے سریا پڑ جاتا ہے اور ایک رضا ہے کہ سادگی سے دشت کش نہیں ہوا، ایک دن وہ ہسپتال سے واپس جا رہا تھا کہ لوگوں کا ایک اژدھام دیکھا جو اک جگہ جمع تھے، اُس نے آگے جا کر اصلیت جاننے کی سعی کی، جب آگے گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بزرگ زمین پر بیٹھے ہیں اور کچھ بُڑ بڑائے جا رہے ہیں اور اوپر کھڑی خلقت میں سے
کوئی اسے خبطی پکار رہا تھا اور کوئی وہم کا مارا،غرض سبھی طعن وتشنیع اور طعن و ملامت سے کام لے رہا تھا مگر حقیقت الحال جاننے سے سبھی گریز پائی کا ثبوت دے رہے تھے، رضا کو یہ بات بڑی شاق گزری، اس نے آگے جا کر بزرگ سے اصل بات جاننے کی کوشش کی تو بزرگ بولے کہ بیٹا تین دن سے گھر میں فاقے ہیں اور بچہ بہت بیمار ہے غریب ہونے کی وجہ سے کوئی علاج بھی نہیں کرتا، اُس نے بابا جی کو بازو سے پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا اور اس کے بچے کا نا صرف علاج مفت کیا بلکہ بابا جی کو اپنے آفس میں ہی گارڈ کی نوکری دلا دی،وہ اکثر غریبوں کی چپکے چپکے مدد کر دیتا اور اگر کوئی ضرورت مند اس سے اُس کا نام دریافت کرتا تو اپنا اسمِ گرامی بتانے یا اُن کے ساتھ سیلفیاں لینے کی بجائے اس کا جواب بس یہی ہوتا کہ اس مالک کا گنہگار بندہ وہ ہمہ وقت اپنے کام میں منہمک رہتا اور اسے ڈیوٹی نہیں عبادت سمجھ کر کرتا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ لوگ کافی خوشحال ہو گئے، اچانک ایک دن ایک عجیب سی وبا پھیلی جس نے دنیا کے تمام ممالک کو دیکھتے ہی دیکھتے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بہت سے ممالک وسائل میں منعم ہونے کے باوجود کچھ نہ کر پائے اور انسانی زندگیاں دن بہ دن اس وبا کی بھینٹ چڑھتی گئیں، اپنے ملک میں بھی اس کرونا نامی وبا کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھ کر اسے بے چینی ہوئی اور وہ شبانہ روز لوگوں کے علاج میں جُٹ گیا، چوبیس گھنٹے وہ ہسپتال میں موجو رہتا اور مریضوں کی نگہداشت میں محو رہتا،اس نے دوسروں کی خدمت میں یہ بات بھی ذہن سے نکال دی کہ اسے خود بھی یہ وبا مریضوں سے منتقل ہو کر نقصان پہنچا سکتی ہے مگر اُسے فکر تھی تو اپنے ہم وطنوں اور اُن کی جانوں کی، وہ دن رات ڈیوٹی دیتا رہا اور لگاتار محنت اور بیماری کے غلبے سے لا علم ہوتا گیا اور آخر ایک دن بیماری نے ایسا وار کیا کہ وہ خادمِ خلق جانبر ثابت نہ ہو سکا، تمام عالم نے اس کی خدمات کا اعتراف کیا اور اس کے قلب میں پنہاں انسانیت کے درد کو بھی سلام پیش کیا، یقیناً اس جیسے بیٹے ہی ہماری قوم کا فخر و غرور ہیں اور انہی کی بدولت یہ مملکتِ خداداد تابندہ ہے اور انشاء اللہ تابندہ رہے گی۔
بہت خوب ۔لاجواب افسانہ۔۔واقعی بہادری اور جرات سے حالات کا سامنا کرنے والے ہی منزل مقصود تک پہچ پاتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںمصنف نے بھی موجودہ حالات کے پیش نظر قلم اٹھایا۔
حذف کریںNice
جواب دیںحذف کریں