آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری

 آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری

آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامہ نگاری کے اولین معماروں میں سے ہیں انہوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے نہ صرف اردو ڈرامے کی خدمت کی بلکہ عوام تک اردو ادب کا نثرو شعر کا ادب پیش کیا جو وہ ان پڑھ ہونے کی وجہ سے پڑھ نہیں سکتے تھے آغا حشر کاشمیری نے آغاز جوانی میں قدم رکھا اور 30 ،32 برس ڈرامے کی دنیا میں کامیابی کی علامت بنے رہےوہ اپنے ڈراموں میں عوام کے ذوق کا خیال رکھتے تھے اس لیے ہنگامہ آرائی سے ڈرامے کا آغاز کرتے تھے اور اس میں ناچ گانا اور سستا مزاح بھی ہوتا تھا آغا حشر نے ڈرامے کےجوعناصر متعین کیے تھے ان سے آج تک ڈرامہ پیچھا نہیں چھڑا سکابھارت اور پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی تھیٹر کی اس روایت کا شکار ہے آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا فن بتدریج ترقی ترقی کی جانب سب سفر کرتا ہے پہلے ڈرامے سے آخری ڈرامے  تک ان کی تحریر کا تجربہ اور اعتماد بڑھا اور اسی طرح ڈراموں کی زبان میں بھی تبدیلی آتی گئی۔
آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

پہلا دور 1906تا1909
دوسرا دور 1910 تا 1916
تیسرا دور 1917 کا 1924


انیس سو چوبیس کے بعد سے آغا حشر کی وفات کے دور کو ملے جلے اسلامی ڈراموں کا دور کہا جا سکتا ہے۔

پہلا دور


اس دور کے ڈراموں میں زیادہ تر انگریزی ڈراموں کے ترجمےہیں مرید شک ،ما ر آستین، آفتاب محبت ، اسیر حرص،میٹھی چھری عرف دو رنگی دنیا، دام حسن اور ٹھنڈی آگ غیرہ اس دور کی تخلیقات ہیں ان ڈراموں میں آغا حشر کی بذلہ سنجی فقرے بازی ،بدیہہ گوئی عروج پر ہے ان ڈراموں کی وساطت سے آغا عوام کے ذوق سے  شنا سا ہو چکے تھے ۔


دوسرا دور


اس دور میں آغا حشر نے اپنے ڈراموں میں بدیہہ گوئی فقرہ بازی کے علاوہ اشعار کی بھرمار کر دی تھی لیکن اس زمانے میں 
احسن اور بے تاب کے ڈراموں میں مقفعی ومسجع مکالمات کی بھرمار تھی آغا نے بھی مقفعی ومسجع مکالمے لکھے جاو بے جا اشعار کھپائےاس زمانےکے ڈراموں کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آدھا ڈرامہ نظم میں ہوتا تھا پہلے سین سے گانوں کی بھرمار شروع ہو جاتی تھی ڈراموں کا مزاحیہ حصہ بہت سوقیانہ تھا یہ حصہ تھرڈ کلاس کے ناظرین کے لئے تھا اور یہ بات عجیب ہے کہ ڈرامے کی کامیابی کاانحصار بھی تماشائی ہوتے تھے اس لئے آغا ان کی تفریح کا خیال زیادہ رکھتے تھے۔

تیسرا دور
 

تیسرے دور کے ڈراموں سے صاف طور پر عیاں ہے کہ آغا نے شعوری طور پر کوشش کی کہ وہ ڈرامے کی نہج کو بدل ڈالیں اور عوام کا ذوق بدلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اس دور میں اشعار کی بھر مار کم ہوگئی اور مزاحیہ عناصر سے بھی عامیانہ پن اور سوقیانہ پن غائب ہو گیا اس دور میں آغاکی نکتہ آفرینی اور بذلہ سنجی عیاں نظر آتی ہے۔
اس کے بعد کا دور آغا حشر کی فنی ترقی کی معراج ہے اس دور میں تمام ادوار سے زیادہ ڈرامے لکھے گئے آنکھ کا نشہ، دل کی پیاس، ترکی دور، رستم و سہراب جیسے شاہکار اسی دور کی تخلیقات ہیں اس دور کے ڈراموں کے پلاٹ تخیل کے بجائے حقیقی زندگی سے لیے گئے ہیں۔
آغا حشر کاشمیری نے اردو ڈرامہ نویسی میں وہ مقام حاصل کیا جو کوئی حاصل نہ کر سکا وہ زمانے کے نبض شناس تھے جو عوام طلب وہ اس کے سوا کچھ نہ عطا کرتے تھے عوام کا مذاق ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا بدلتا رہتا ہے اس لیے آغا حشر لکیر کے فقیر نہ رہے بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ خود کو بدلتے ہوئے رجحان کے مطابق ڈالتے رہے اس لئے انہوں نے  دولت اور شہرت کمائی خود کہا کرتے تھے کہ میں زمانے کی نبض پہچانتا ہوں اور ان کے مذاق کے مطابق ڈرامہ لکھتا ہوں اگر اپنی پسند کے مطابق ڈرامہ لکھتا تو بھوکوں مرتا۔آغا کے ڈراموں میں ہیئتی بدوضعی،ہنگامے سے ڈرامے کا آغاز پہلے ایکٹ میں ہنگامہ خیز گرماگرم مناظر ، دوسرا ایکٹ دھیما کمزور اور بے جان ان تیسرا ایکٹ پھسپھسا اور بے جان موضوع سے گریز، مزاحیہ حصہ بازاری پن سے بھرپور اور بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں۔
یہ درست ہے کہ آغا کے ڈراموں میں مندرجہ بالا خامیاں موجود ہیں اور آغا کے ابتدائی دور کے ڈرامے اصولوں پر پورے نہیں اترتے اور گانے بھی اکثر بے محل ہوتے ہیں لیکن آغا حشر کاشمیری عوامی ڈرامہ نگار تھے اور انہوں نے اس وقت ڈرامے لکھے جب اردو ڈرامے پر مغربی اثرات نہیں پڑےتھے اس لیے ہمیں مغربی نقادوں کی عینک سے آغا کا ڈرامہ نہیں پڑھنا چاہیے وہ جو کچھ لکھتے تھے عوام کو خوش کرنے کے لئے لکھتے تھے اس لئے وہ اصولوں کی پابندی برداشت نہیں کر سکتے تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اردو ڈرامے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا اور آئندہ آنے والوں کے لئے بہتر سے بہتر نمونےتخلیق کیے۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نوجوان مصنفہ مہر یکتا کا تعارف

خیر الدین اعظم کا تعارف اور شاعری

نوجوان نسل کے شاعر عبدالمنان صمدی