افسانہ...
خواہشوں کا قتل......
گھرمیں مہمانوں کا ہجوم تھا
اور اس کی وجہ تھی چاچا کی ایران سے واپسی مع اہل وعیال میاں نجاوت صاحب پانچ بھائی تھے دو بھائی تقسیم کے وقت پاکستان چلے گئے ارادہ نجاوت صاحب کا بھی تھا لیکن نجاوت صاحب کے والد محترم حاجی عبد الکریم اور اماں بی آسیہ کسی صورت ہندوستان کو چھوڑ نے پر راضی نہ ہوئےان کا کہناتھا کہ ہم تقسیم سے پہلے بھی کبھی اس طرف نہیں گئے جبکہ وہ ہمارے ملک کا حصہ تھا اور اب جبکہ اس نے ایک ملک کی شکل اختیار کرلی ہے تو ہم اپنا ملک چھوڑ کر کیسے کسی غیر ملک میں جائیں نجاوت صاحب اور ان کے بھائیوں نے اپنے والدین بہت سمجھا یا اور یہ تک کہا کہ وہ ایک مسلم ملک اور آزادی کے بعد ہندوستان ایک ہندو ملک ہوگیا ہے. اس لیے ہمارا ایک ہندو ملک میں رہنا مناسب نہیں...
ہندوستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو کبھی کسی مزہب کی بنیاد پر نہیں جانا گیا اور آگے بھی نہیں جانا جائے گا.. انشاءاللہ.. حاجی عبد الکریم نے انشاءاللہ پر زور دیتے ہوئے کہا.. ساتھ ہی نجاوت صاحب اور ان کے دو باشعور بھائیوں کو انجینئر اشرف علی اور ماسٹر فیضان رشید کو پاکستان جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ تینوں کو پاکستان جانے کی ہماری طرف سے پوری اجازت البتہ میاں نواز راغب اور عکرمہ کو ہم تمہارے ساتھ نہیں بھیج سکتے..
نواز راغب تقسیم کے وقت 5 سال کے تھے جبکہ عکرمہ کی عمر محض 2 سال کی تھی اس کے علاوہ نجاوت صاحب کی دو بہنیں بھی تھیں جنہوں نے حال ہی میں جوانی میں قدم رکھا تھا...
اور حاجی عبد الکریم کسی حال میں اس بات پر راضی نہیں ہونے والے تھے کہ فسادات کے اوقات میں ان کی بچیاں ایسے سفر پر جائیں جہاں کہ عصمت دری کا خطرہ ہو اور وہ کسی کی ہوس کا شکار بنیں کیوں کہ ایسی خبری مسلسل ہردن سننے میں آرہی تھیں..
آخر کار یہ طے ہوا کہ انجینئر اشرف علی اور ماسٹر فیضان رشید پاکستان جائیں گے اور نجاوت صاحب اور ان کے دونوں چھوٹے بھائی اور بہنیں ہندوستان میں ہی رہینگی اپنے والدین کے ساتھ پاکستان جانے کا ارادہ تو نجاوت صاحب کا بھی تھا اور خواہش بھی لیکن وہ بوڑھے والدین اور جوان بہنوں کو چھوڑ کر کیسے جاسکتے تھے.. اس لیے انہوں نے جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا.. جب تک والدین دنیا میں رہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خوشگوار رہےتب تک دونوں بھائی برابر وقت نکال کر ہندوستان آتے رہے لیکن والدین کے دنیا سے جانے کے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ منقطع ہوگیا البتہ خط و خطابت کا سلسلہ برسوں جاری رہا اور بعد میں یہ سلسلہ ای میل اور فیسبک واٹس ایپ میں تبدیل ہوگیا...
والدین کے انتقال کے بعد چھوٹے بھائی بہنوں کی ذمہ داری نجاوت پر آگئی.. ویسے مالی اعتبار سے کوئی پریشانی نہیں تھی نجاوت صاحب نے ایم اے کرنے کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع کردیا تھا اور والد صاحب کی چاندنی چوک پر دکان پر بھیٹنے لگے دکان جمی ہوئی تھی اس لیے والد کے گزرنے کے بعد نجاوت صاحب کو زیادہ دشواری نہیں ہوئی..
ان کی شادی والدین نے دور کے رشتے کے ایک چاچا کی لڑکی سے کردی جس کا تعلق میوات کے گاؤں بیسرو سے تھا.. زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھیں لیکن قرآن پاک اور بنیادی دینی معلومات ضرور رکھتی تھیں... ان سے نجاوت صاحب کی 3 اولاد ہوئیں.. دو لڑکیاں اور ایک لڑکا... جس کی دنیا میں آمد لڑکیوں کی پیدائش سے تقریباً 15.. 16 سال..کے بعد ہوئی... اس لیے وہ سب کا لاڈلا تھا اس کی تین وجہ تھیں ایک تو وہ گھر میں سب سے چھوٹا تھا.. دوسرا اس کی پیدائش اور لڑکیوں کی پیدائش میں کافی وقفہ تھا اور تیسری وجہ جو سب سے اہم تھی وہ یہ تھی کہ وہ لڑکا تھا...
نجاوت صاحب نے بہنوں کو بارہویں جماعت تک تعلیم دلائی اور ان کی شادی کردی جبکہ دونوں چھوٹے بھائیوں کو اعلی تعلیم دلائی ایک نے سول انجینئرنگ کی ڈگری لی اور ملازمت کے امریکہ چلا گیا جبکہ منجھلے بھائی نے فارسی زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور تہران یونیورسٹی میں پروفیسر ہوگیا... گھر میں لوگوں کا ہجوم اسی کی آمد کی ہی وجہ سے تھا...
نجاوت صاحب نے بہنوں کی طرح بیٹیوں کو بھی مختصر تعلیم دلائی اور شادی کردی... ان کی ایک بیٹی ان کے حقیقی بھانجے کے ساتھ بیاہی گئ جبکہ دوسری بیٹی کو انہوں نے اپنے سالے کے لڑکے کے نکاح میں دیا...
اور آج چھوٹے بھائی کی آنے کی خوشی سب لوگ جمع ہوئے تھے.
جو تہران یونیورسٹی میں پروفیسر تھا....
نجاوت صاحب کی ہمیشہ سے دو خواہش رہیں ایک ان کا بیٹا اپنے چھوٹے چاچا عکرمہ کی طرح انجنئیر بنے اور ان کی حقیقی بھتیجی ہانیہ دختر نواز راغب ان کے گھر کی بہو بنے ایک خواہش کا تو ان کے فرحان نے پہلے ہی جنازہ نکال دیا تھا.. جب اس نے سائنس کو کو الوداع کہہ کر آرٹس کا انتخاب کیا.. اور اس کے ایسے کرنے کی وجہ دو تھیں ایک اس کا حلقہ احباب دوسرا شعرو شاعری میں دلچسپی آٹھویں جماعت سے اس نے بیت بازی کے مقابلے میں حصہ لینا شروع کردیا رفتہ رفتہ یہ دلچسپی شوق کی حد پہنچ گئی. شوق نے تعلیم اور تعلیم نے مستقبل کی جگہ لے لی.. اول، اول تو نجاوت صاحب کو بیٹے کا فیصلہ ناگوار گزرا لیکن بعد ازاں انہوں نے بیٹے کے فیصلے کو قبول کر لیا...
فرحان نے بھی والدین کو مایوس نہیں کیا اس نے بی اے اور ایم اے اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم فل دہلی یونیورسٹی سے کر نے بعد اس نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا.. ایم اے کے آخری سال میں اس نے jrf کا ٹیسٹ بھی پاس کرلیا تھا..
اس کے علاوہ ادبی حلقوں میں بھی فرحان اپنی منفرد شاعری اور لب و لہجہ کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا..
جہاں فرحان کی یہ صورت حال تھی کہ گھر میں ادبی ماحول نہ ہونے کے باوجود اس کی پوری دلچسپی ادب میں تھی وہی دوسری طرف ہانیہ ایک ادبی ماحول میں رہنے کے باوجود مغربی ماحول اور سائنس کی طالب علم تھی اور کیمبرج یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی..
نجاوت صاحب کی ان کا چھوٹا بھائی پروفیسر نواز راغب بھی ہانیہ اور فرحان کی شادی کے حق میں تھا....
گھر میں چاروں طرف شوروغل تھا ایک جشن کا سا ماحول تھا سب موجود تھے نجاوت صاحب ان کی بیٹیاں،دونوں بہنیں، ان کے بھانجی بھانجے، نواسی نواسے، بھائی نواز راغب اور ان کی فیملی.. سب تھے علاوہ فرحان کے.. وہ 3 روز کے سمینار میں شرکت کے لئے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد گیا اپنا مقالہ پڑھنے کے لئے.. یہ بات نجاوت صاحب نے اپنے بھائی فرحان کی غیر حاضر ہونے پر پوچھی..
واپسی کب ہوگی.. نواز راغب نے نجاوت صاحب سے پوچھا..
کس کی واپسی.. فرحان کی اور کس کی کوئی اور بھی غیر حاضر ہے کیا گھر میں؟؟؟
نہیں معلوم ویسے 3 روز کا سمینار ہے 2 دن ہوگئے اسے حیدرآباد پہنچے ہوئے شاید ایک دو دن اور لگ جائیں.. ہو سکتا ہے کہ سمینار کے بعد گولکنڈہ.. چار مینار بھی جائیں...
دوپہر کے 3 بج رہے تھے گرمی اپنے پورے شباب پر تھی.. تبھی دروازے پر دستک ہوئی لیکن کسی نے دروازے نہیں کھولا مگر جب سائل نے زوردار دستک دی دروازے پر تو ہانیہ کے کانوں میں بھی دستک ہوئی جو اس وقت فریج میں ٹھنڈا پانی لینے ہال میں آئی ہوئی تھی..
اس نے ایک طائرانہ نظر اپنے چاروں طرف دوڑائی جب اسے کوئی نظر نہیں آیا تو اس نے دروازے کی طرف رخ کیا جہاں سے مسلسل دستکوں کی آوازیں آرہی تھیں..
جب اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک لڑکا جس کی عمر تقریباً 25، 26 سال ہوگی.. سفید شرٹ جس کا اکثر حصہ پسینوں تر تھا،، بلیک پینٹ.. شانوں پر بیگ سیدھے ہاتھ میں براؤن کوٹ اور گلے میں ٹائی ڈالے کھڑا تھا...
آگئے آپ... آپ کے دیدار کے لیے تو آنکھیں ترس گئیں.. ہانیہ نے کچھ طنزیہ اور شرارتی انداز میں فرحان سے کہا..
اور فرحان اس لڑکی کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا جس نے دروازے کھولا..
سانولا سا چہرہ.. بڑی بڑی نیلی نیلی آنکھیں... کانوں میں چوڑی نما بندے... سہنری بال... لمبی ناک... آنکھوں میں کالا کاجل... ہونٹوں پر سرخ لپ اسٹک..
کیا ہوا شاعر صاحب ہانیہ نے فرحان کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا.. اندر تشریف لائیے اپنا ہی گھر سمجھیے.. یہ دوسرا طنزیہ اور شرارتی جملہ تھا جو ہانیہ کی زبان سے نکلا...
فرحان نے اندر داخل ہوتے ہوئے ہانیہ سے کہا تم کب آئیں.. ارے جناب ہمیں تو آئے زمانہ ہوا.. بکواس نہ کرو صحیح صحیح بتاؤ اور سب لوگ کہاں ہیں...
فرحان یہ کہتے ہوئے اپنی والدہ کو آواز لگائی.. فرحان کی آواز سن کر نہ صرف اس کی ماں بلکہ سب لوگ آگئے.. سوائے نجاوت صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی نواز راغب کے جو دوکان پر گئے ہوئے تھے...
فرحان کے آنے سے گھر میں خوشی کا ماحول اور بڑھ گیا.. اب دن بھر ہانیہ اور فرحان میں دن بھر بحث تکرار ہونے لگی.. کبھی سائنس اور آرٹس کو لیکر تو شاعری کو لے کر... مگر ہار ماننے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا...
لیکن انہی بحث تکرار میں فرحان ہانیہ کو پسند کرنے لگا... اور اس کو بھی یہ یقین ہونے لگا تھا کہ وہ بھی اس کو پسند کرتی ہے... اس کو امید تھی کہ اگر وہ اپنی پسند کا اظہار ہانیہ اور اپنے چاچا نواز راغب.. اپنے والدین سے کرے گا تو کسی کو بھی اس کی پسند پر اعتراض نہیں ہوگا... لیکن وہ اس اظہار سے پہلے اقرار کرنا چاہتا تھا...
یعنی ہانیہ کوپرپوز کرنا چاہتا تھا... گھر والوں کو بتا نے سے پہلے... ایک دن موقع دیکھ کر ہانیہ کے کمرے میں گیا.. جہاں اس کی چاچی اور ہانیہ پہلے سے باتیں کرنے میں مصروف تھیں...
آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں مما آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اور فرحان ایک ہو سکتے ہیں...
کیا تم دونوں ابھی ایک نہیں ہو
ہیں لیکن جس شکل میں آپ ہمیں ایک دیکھنا چاہتے ہیں وہ نہیں ہوسکتا..
کیوں نہیں ہوسکتا.. کمی کیا ہے فرحان میں.. خوبصورت ہے پڑھا لکھا.. تخلیق کار....تم سے زیادہ پڑھا لکھا ہے تم صرف گریجویٹ ہو اور وہ پی ایچ ڈی کر رہا ہے... خاندانی ہے... اور کیا چاہیے... اور اگر تمہیں وہ اتنا ہی برا لگتا ہے تو دن بھر اس کے ساتھ کیوں رہتی ہو.. فرحان یہ فرحان وہ...سارا نواز نے ایک سانس میں اور غصے کے انداز میں اپنی بات ہانیہ سے کہہ دی..
مما میں نے یہ کب کہا کہ وہ مجھے برا لگتا ہے.. وہ میرا کزن ہے.. میرا دوست ہے اور اچھا دوست ہے.. لیکن میں اسے اپنا رفیق سفر نہیں بنا سکتی...
فیصلہ نہ سناؤ وجہ بتاؤ..
وجہ اس کی تعلیم ہے...
تعلیم کیسے؟؟؟ کیا وہ جاہل ہے...
وہ جاہل نہیں احمق ہے...
اچھا.. وہ کیسے... ؟؟
جو بندہ آج کے دور میں انجینئرنگ چھوڑ کر آرٹس میں جائے اور وہ بھی اردو لٹریچر میں.. جس کی حالت دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہے.. محض اپنے ایک شوق.. سوری سوری شوق نہیں پاگل پن کے لیے اپنے روشن مستقبل کو تاریکی میں ڈال دے اسے احمق نہیں تو کیا کہیں گے مما...
رازق اللہ ہے بیٹا...
بیشک رازق اللہ مما لیکن رزق چل کر نہیں آتا... اور ہم بنی اسرائیل میں سے تو ہے نہیں جو منا وسلوی آسمان سے اترے گا...
زندگی گزار نے کے لئے اب فقط دو روٹی دو بوٹی کی ضرورت نہیں ہوتی.. اور بھی چیزیں ضروریات زندگی میں آتی ہیں مما...
تیرے والد بھی تو آڑس کے استاد ہیں...
تو پاپا نے کیا کیا سروائیو کیا آپ نہیں جانتی.. پھر بھی نوکری کہاں ملی تہران میں... نہ کہ ہندوستان میں..
آزادی کے بعد جو حالت فارسی زبان کی ہوئی اب وہی حالت اردو زبان کی ہے ہندوستان میں.. اور ہم پاکستان جا سکتے ہی نہیں...
اور ویسے بھی کسی ایسے شخص کے ساتھ تمام عمر نہیں رہ سکتی جو تصوراتی دنیا اور خیالی محبوبہ کے چکر میں پڑا رہتا ہو...
فرحان ایسا ہرگز نہیں.... اور ویسے بھی میں تمہیں بتانے آئی تھی تمہارا فیصلہ سننے نہیں.... سارا بی یہ کہتے ہوئے دروازے کے طرف بڑھیں.. فرحان جو کھڑکی کے پاس کھڑا یہ سب باتیں سن رہا تھا.. سارا بی کو آتے دیکھ کر وہاں چلا گیا...
دو روز تک ہانیہ.. فرحان سے ہم کلام نہیں ہوئی.. تیسرے روز شام کے وقت سب گھر والے ساتھ میں بیٹھے تھے تبھی نجاوت صاحب کی نظر فرحان پر پڑی جو کاندھوں پر بیگ ڈالے کھڑا تھا...
کہیں جارہے ہو فرحان
جی ابا..
کہاں..
میسور...
کس لئے..
سمینار...
واپسی کب ہوگی...
5 دن بعد..
اچھا.. کیا ابھی فوراً نکلنا ہے...
جی..
ٹرین کتنے بجے ہے...
8 بجے...
لیکن ابھی تو 5 بجے ہیں اتنی جلدی کیوں تیار ہوگئے..
ابا وہ مہران کو اس کے گھر سے لینا ہے اس لیے...
کیا 10 منٹ دے سکتے ہو
جی.. کیوں نہیں...
آؤ یہاں آکر بیٹھو..
فرحان نے کاندھوں سے بیگ اتار کر صوفے کے پاس رکھ دیا..
اور بیٹھ گیا..
ہانیہ بیٹا یہاں آؤ.. نجاوت صاحب نے ہانیہ کو اپنے پاس بلایا جو اب تک اپنے چھوٹے بھائی کےساتھ بیٹھی ہوئی تھی..
نجاوت صاحب نے ہانیہ کو اپنے قریب بیٹھا کر.. گھر کے تمام افرادبکو مخاطب کیا..
دیکھو بھئی میں نے اور میاں نواز نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگلے مہینہ کے آخری عشرے میں فرحان اور ہانیہ کا نکاح کر دیا جائے... اور جب فرحان میاں.. اپنی پی ایچ ڈی مکمکل کرلینگے اس کے بعد تمام برادری کے لوگوں کی دعوت کردی جائے گی...
نجاوت صاحب کی بات سن کر سب بہت خوش ہوئے سوائے ہانیہ اور فرحان..
لیکن ابا یہ تو آپ نے فیصلہ سنایا ذرا فرحان اور ہانیہ کی بھی رائے جان لیجیئے کیا یہ آپ کے فیصلے سے خوش ہیں کہ نہیں..
ہاں ،ہاں کیوں نہیں...
کیوں بیٹی ہانیہ تم کو فرحان پسند ہے نا...
ہانیہ اس فیصلے سے خوش نہیں تھی لیکن خاموش رہی اور سب نے اس کی خاموشی کو اس کی رضا مندی سمجھا...
کیوں میاں فرحان تمہارا کیا خیال ہے ہانیہ کے بارے میں کیا تمہیں ہانیہ اور یہ رشتہ پسند ہے...
فرحان جانتا تھا کہ ہانیہ والدین کے دباؤ کی وجہ سے خاموش رہی اس لیے اس نے انکار نہیں کیا جبکہ وہ دل سے راضی نہیں ہے... اس نے بھی سکوت اختیار کر نے کے بعد کہا مجھے یہ رشتہ پسند نہیں..
فرحان کے انکار نے نجاوت کی دوسری خواہش کا بھی قتل کردیا.. لیکن اس بار انہوں نے فرحان سے انکار کی وجہ دریافت کی..
فرحان نے بیگ کاندھوں پر ڈالتے ہوئے صرف اتنا کہا مجھے دیر ہورہی... میں چلتا ہوں.. اللہ حافظ..
اور تیز قدموں کے ساتھ گھر سے باہر نکل گیا....
عبد المنان صمدی
١/جون /٢٠٢٠.. بروز دوشنبہ... علی گڑھ
👌👌
جواب دیںحذف کریںشکریہ
حذف کریں