"شاریہ" از عبدالمنان صمدی
شاریہ" از عبدالمنان صمدی "
میں آج بھی اس کو یاد کرتا ہوں لیکن ہماری پیدائش ایسے ممالک میں ہوئی ہے جو اپنی پیدائش سے ہی ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں اگر ہم ایک ہو بھی جاتے تو ساتھ رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا
اس لئے ایک بات میں اکثر کہتا ہوں نہ وہ بے وفا تھی اور نہ میں دھوکہ باز بس ہوا کا رخ ہمارے مخالف تھا
عمران کی باتیں سنتے سنتے عائشہ کو اپنے بدن سے عجیب سی بو آنے لگی جبکہ وہ ابھی آدھے گھنٹے پہلے حمام سے غسل کرکے نکلی تھی
نفسیاتی طور پر اس کو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ پچھلے دو سال سے ایک ایسے آدمی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہوں جو جسمانی طور پر اس کا ہے لیکن روحانی طور پر کسی اور کا ہے..
تو کیا میں نے دو سال پہلے ایک کونٹیک پر دستخط کیے تھے اور وہ گواہ، وکیل، قاضی، ایک جم غفیر، وہ کاغذ کا ٹکڑا جس کے مکمکل طور پر. پرہو نے پر سب کے منھ میٹھے کرائے گیے تھے جس کو نکاح نامہ کہا جاتا ہے عورت کے جسم کی خرید فروخت کا کوئی نیا طریقہ کار تھاکیا میرے پیٹ میں پلنے والا یہ بچہ میرے اور عمران کے جسم کے وقتی حرکات کا نتیجہ ہے اور اس طرح کے نہ جانے کتنے منفی خیالات عائشہ دل ودماغ گردش کرنے لگے. عورت ذات کی نفسیات بھی عجیب ہوتی ہے جب وہ منفی سوچنے لگتی ہے اور تب تک منفی سوچتی ہے جب تک اس کا دل ودماغ پر منفیت غلبہ رہتا ہے. تب تک وہ مثبت سوچ ہی نہیں سکتی. اور جب مثبت خیالات کی بارش ہورہی ہوتو اس وقت کسی طرح کا کوئی منفی خیال اس کے دل ودماغ پر اپنی جگہ بنا ہی نہیں سکتا .. اسی طرح جب عورت کوئی فیصلہ کرلے چاہے اس کے نتائج اچھے ہوں یا برے وہ اپنا فیصلہ نہیں بدلتی، آپ اسے کتنی بھی منطقی طریقے یا دلائل سے کیوں نہ سمجھالیں ایسی ہی کچھ صورتحال عائشہ کے ساتھ بھی تھی عمران کی ڈائری کی چند سطروں نے اور ایک صنف نازک کی کچھ تصاویر نے جو اس کو ڈائری میں رکھی ملیں پلس عمران کے اقبال جرم جس کو تقویت دے دی تھی اتنا سب کچھ ہونے کے بعد کسی سے مثبت سوچ رکھنے امید نہیں کی جاسکتی خاص طور پر عورت ذات تو بالکل بھی نہیں. جس کے یہاں شک بھی ایک مضبوط ثبوت کا درجہ رکھتا ہے آئشہ انہی سب منفی خیالات میں گم تھی جس کے اثرات اس کے چہرے ظاہر ہورہے تھے عمران بھی عورت کی نفسیات کا اتنا تو علم رکھتا تھا کہ وہ یہ اندازہ کر سکے کہ عورت سے کس حال میں کتنی گفتگو کرنا مناسب ہوتی ہے اور جب وہ عورت بیوی کی شکل ہوتو کہنے ہی کیا.سونے پر سہاگہ اگر بیوی غصے میں ہو تو بات اور حالات بگڑنے کے خطرہ کچھ زیادہ ہی ہوجاتا ہے. عورت صرف اپنے حسن، اپنی ادا، اپنی گفتگو اپنے چال چلن سے ہی قیامت نہیں ڈھاتی بلکہ ان سب میں عورت کی خاموشی سب سے زیادہ گھاتک ثابت ہوتی ہے.عمران بھی اس طوفان کے آنےسے پہلے والی خاموشی کو اچھی طرح محسوس کررہا تھا. اس کو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں عائشہ کی چپی ٹوٹنے کے بعد وہ الگ ہونے یعنی طلاق کا مطالبہ نہ کردے کیوں ہندوستانی مسلم عورت بھلے کتنی بھی شریعت کی پابند کیوں نہ ہو لیکن وہ کسی بھی حال میں شوہر کے بٹوارے کو برداشت نہیں کرتی. عمران کیوں کہ پیشے سے وکیل تھا وہ رات دن عدالت میں ایسے کیسس دیکھتا تھا جہاں عورت نہ لڑائی جھگڑے، نہ غربت، نہ تعلیمی لیاقت، کے سبب مرد سے طلاق کا مطالبہ کرتیں ہیں بلکہ وہ جو کیسس دیکھتا تھا ان میں اکثریت عورت مرد سے طلاق کا مطالبہ دوسرے عورت سے مراسم یا دوسرے نکاح کی بنیاد پر کرتی ہیں..اور ابھی دو ہفتے پہلے ہی اس نے ایسے ہی دو طلاق کے کیسس حل کرائے جن کا مطالبہ عورتوں کی طرف سے تھا مرد کی نہیںےارے یہ مجھے کیا ہوا عورت کی نفسیات کا مطالعہ کرتے کرتے میں بھی عورت ہی کی طرح کیوں سوچنے لگا عمران نے خود کو جھنجھوڑتے ہوئے . عائشہ سے کہاعائشہ کچھ تو کہو تمہاری خاموشی مجھے پریشان کر رہی ہے اب کہنے سننے کچھ بچا ہے عمران....
عائشہ نے ناراضگی کے انداز میں عمران سے کہا تمہاری ڈائری اور یہ تصاویر چیخ چیخ کر تماری عاشقی، تمہاری عیاشی داستان بیان کرتو رہی ہے. جب تمہارا معاشقہ کسی سے چل رہا تھا تو تم مجھ سے شادی کیوں کی؟؟ اس کا کوئی جواب ہے تمہارے پاس اور پلیز یہ تو ہرگز نہیں کہنا کہ والدین کی خوشی کے لیے شادی کی، کیوں کہ اگر ان کی خوشی کا اتنا ہی خیال ہوتا تو ان کی دی ہوئ امانت کا بھی خیال ہوتا یعنی میرا.
عائشہ نے ایک ہی جھٹکے میں خود کو مکمکل معصوم اور عمران کو مکمل گناہ گار ثابت کر دیا. یا پھر مجھ سے شادی کرنے کا تمہارا مقصد اپنے جسم کی اس آگ کو بھجانا تھا. جو یہ میری سوکن عائشہ نے ٹیبل پر تصاویر کو جھٹکے سے پھینکتے ہوئے کہا. بھڑکا کر گئ تھی عائشہ، عمران نے تھوڑی تیز اور شرمندگی کے انداز میں عائشہ سے کہا یہ حقیقت ہے کہ میں آج بھی اس کو miss کرتا ہوں یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ اب اس کا میرا کوئی رشتہ باقی نہیں ہے وہ میرا ماضی تھا اور آپ میرا حال و مستقبل ہیں،
واہ کیا فلسفہ ہے جناب کا وہ ماضی میں کلی طور پر تمہارے ساتھ تھی حال میں تم اس کو یاد کرتے ہو اور مستقبل تمہارا میں ہوں..
وکیل صاحب عورت ناقص العقل ہو سکتی ہے لیکن ذہانت میں مردوں سے کم نہیں ہوتی یہ تو عورت کا مکلف اللہ نے مردوں کو بنایا ہے اس لیے آج بھی عورت کی ایک کثیر تعداد خوشی خوشی باوجود تعلیمی لیاقت رکھنے گھروں میں روٹی، ہنڈیا کے فرائض انجام دے رہی ہے،
میرا مطلب یہ نہیں تھا عمران نے شرمندگی کے ساتھ کہا آپ کامطلب کیا تھا میں اچھی طرح جانتی ہوں چلیے آپ اپنی داستان عشق ذرا تسلسل بتائیں ڈائری میں تو وہ پیغام تحریر تھے جو محترمہ نے آپ کو فیس بک میسنجر یا واٹس ایپ پر کیے جن کو آپ نے خطوط غالب کی طرز پر خطوط کی شکل دے دی ہے
چلیے بتائیں کہاں پر ملا قات ہوئی میری سوکن سے عائشہ کا مسلسل غصہ ہونا اور اس کے غصہ پر عمران کاخاموشی اختیار کرنا. ان ہی دونوں باتوں کی وجہ سے عائشہ کے لہجے میں تھوڑی نرمی آ گئی تھی ۔
تم جانتی ہو کہ میں وکالت کے علاوہ شاعری بھی کرتا ہوں ایک مرتبہ دہلی یونیورسٹی سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا ہے دراصل دہلی یونیورسٹی کے سینئر طلبہ ایک طلبہ مشاعرہ کروارہے تھے جس میں مجھے بھی بلایا گیا. اور جب میں وہاں گیا تو وہاں پر میری اپنے کالج کے درسی ساتھی فیضان رئیس سے ملاقات ہوئی جو ان دنوں امریکہ میں ہے
فیضان نے مجھے اس بات پر راضی کر لیا کہ مشاعرے کے اختتام کے بعد رات کو قیام اس کے فلیٹ پر کروں گا جو دہلی جامعہ مسجد کے پاس دریاگنج میں ہے جہاں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتا تھا وہ اب امریکہ میں ہےلیکن اس کی فیملی آج بھی اسی فلیٹ میں رہتی ہے
ویسے فیضان کو شعروشاعری سے کوئی شغف نہ طالب علمی کے زمانے میں تھا اور نہ ہی آج ہے
تو پھر کیا مشاعرے میں جھک مارنے آیا تھا . عائشہ نے عمران کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا
میں سچ کہہ رہا ہوں عائشہ اس کو آج بھی شعروشاعری میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ تو شعرا اور شاعری پر طرح طرح کےطنز طالب علمی کے دور سے کرتا چلا آرہا ہے دراصل وہ مشاعرے میں آیا تھا اپنی کزن شاریہ اور عبداللہ طیف کے کہنے پر جو پاکستان سے تشریف لائے تھے
یہ مشاعرہ سننے کے لئے
عائشہ نے ایک بار پھر عمران کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے سوال کر ڈالا
نہیں نہیں وہ اپنی خالہ کے گھر ہندوستان آئے تھے فیضان کی ماں شاریہ اور عبداللہ لطیف کی خالہ ہیں. میں نے پہلی بار شاریہ کو دہلی یونیورسٹی کے سمینار ہال میں ہی دیکھا تھا وہی میری اس سے پہلی مختصر ملاقات بھی ہوئی
پتلی دبلی قسم کی لڑکی تھی
چہرہ ایک دم سفید برف کی طرح آنکھیں بڑی بڑی تھیں ہونٹوں پر لب اسٹک نہیں لگی تھی لیکن سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے اس کے ہونٹ اس قدر سرخ ہوگیے تھے کہ لگتا تھا کہ ہونٹوں پر لب اسٹک جم کر لگا گئ ، آدھے سر پر دوپٹہ اوڑے ہوئے تھی جس کی وجہ سے اس سر کے بالوں کا بھی اندازہ ہو رہا تھا تھوڑے الجھے الجھے سے لگ رہے تھے اس کے بال شاریہ کی تصویر اس طرح کھیچتے ہوئے عمران کو خیال آیا کہ کہیں عائشہ کو میری باتیں ناگوار نہ گزر رہی ہوں اس نے سر اٹھا کر عائشہ کی طرف دیکھا جو کہ ابھی تک شرمندگی کی وجہ سےجھکا ہوا تھا اسے یہ اندازہ ہوا کہ جس طرح وہ کہانی سناتے ہوئے یہ بھول گیا کہ وہ اپنے عشق کی کہانی اپنی بیوی کو نہیں کسی اور کو سنا رہا ہے ویسے ہی عائشہ بھی اپنے شوہر کی نہیں کسی اور مرد کی داستان عشق سن رہی ہے اس لیے اس کے چہرے سے حسد یا جلن جیسے اثرات رونما نہیں ہورہے تھے
بس اس کے چہرے پر مجھے جو سب سے عجیب یا یوں کہوں بری چیز لگی تو وہ تھی اس کی اس کی کیا؟؟
عائشہ درمیان میں عمران کو ٹوکتے ہوئے اس انداز سےپوچھا گویا کہ اس کے کان کب سے منتظر تھے شاریہ کی برائی یا کمی سننے کے لیے عمران کے زبان سےا س کی ناک
کیوں ایسی کیا کمی تھی اس کی ناک میں؟
اس کی ناک مجھے طوطے جیسی لگی. لیکن مجھے ان سب سے زیادہ جو اس میں پسند آیا جس کی وجہ سے نہ چاہ کر میں اس کے قریب ہوتا گیا وہ تھا اس کا بات کرنے کاپنجابی لہجہ وہ پنجابی ہے تم نے تو کہا کہ وہ پاکستانی ہے عائشہ حیرت کے ساتھ عمران سے ایک سوال اور کردیا
ارے وہ لاہور کی رہنے والی ہے اور لاہور تقسیم سے پہلے پنجاب کا حصہ تھا اس لئے وہاں کے رہنے والے پنجابی بولتے ہیں. تم کو اس دن میں نے مولانا طارق جمیل صاحب کا عامر خان والا بیان یوٹوپ پر سنایا تھا نا جب انہوں اپنے بیان کے دوران پنجابی زبان میں ایک دو جملے بولے تھے ان کا تعلق بھی تو رائےونڈسے جو لاہور سے سٹا ہوا ہے
اچھا اچھا پھر آگے کیا ہوا
مشاعرے کے اختتام کے بعد ہم محفل کی چند رسومات ادا کرکے دہلی یونیورسٹی سے دریاگنج کے لیے کار کے ذریعےنکل آئے
آگے والی سیٹ پر میں اور فیضان تھے فیضان کار چلارہاتھا جبکہ پچھلی سیٹ پر شاریہ اور اس کا بھائی عبداللہ لطیف بیٹھے تھے
کچھ وقت تک کار میں خاموشی رہی اس کے بعد فیضان نے خاموشی کا یہ سلسلہ توڑا
ارے باتیں، شاتیں کرو بھئ ہم مشاعرے سے لوٹ رہے کسی کو دفنا کے نہیں.
وہ بھی کسی تدفین سے کم نہیں فیضان بھائی عبداللہ لطیف نے ایک مزاحیہ جملہ چھوڑا
اچھا..
میں نے اچھا اس انداز میں کہا گویا مجھے عبداللہ کا جملہ ناگوار گزرا ہو جبکہ ایسا نہیں تھا
ارے تو چپ کر جب دیکھو شاعری کے متعلق بکواس کرتا رہتا ہے شاریہ نے اپنے بھائی کو ڈانٹتے ہوئے کہا
کوئی بات نہیں کہنے دیجئے دنیا میں چند مخلوق تو خدا نے اس لیے پیدا کی ہیں کہ دنیا کو جب وقت ملے ان پر طنز کرے.
مطلب میں کچھ سمجھی نہیں
یہ شاریہ کی زبان سے نکلنے والا پہلا جملا تھا جس میں سیدھا مجھ کو مخاطب کیا گیا
شاریہ جی خدا کی چند مخلوقات ایسی ہیں جنہوں نے جتنی قربانی اس دنیا کے لئے دی ہیں اس سے کہیں زیادہ اس دنیا نے ان پر طنز کیا جب جب اس کو موقع ملا
اور وہ مخلوق کون کون سی ہیں
سب سے پہلی عورت ذات، مزہبی رہنما، اور شعراء کی جماعت
اور ان کی قربانیاں؟؟
شاریہ جی یہ موضوع وضاحت کے لیے طویل وقت کا تقاضا کرتا ہے جو ابھی ممکن نہیں لیکن میں آپ کی مکمکل طور پر تو نہیں مگر آپ کی کچھ تشنگی ضرور بجھانے کی کوشش ضرور کروں گا
عورت ازل سے ہی قربانی دیتی آرہی ہے اس کی قربانی کے بارے میں مجھ سے بہتر آپ علم رکھتی کیونکہ آپ اسی مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں
جی.. اور مزہبی رہنما شاریہ فوراً دوسرا سوال عمران سے کر ڈالا
اس کو آپ مختصر وقت میں ایک مثال کے ذریعے آسانی سے سمجھ سکیں گی
وہ کیسے؟؟
آپ نے مولانا ابوالکلام آزاد کا نام سنا ہے کیا؟
جی سنا اپنے خالو جان سے یعنی فیضان بھائی جان کے والد صاحب وہ ان کو بہت مانتے ہیں
مولانا آزاد نہ صرف ایک اچھے عالم دین، ادیب،شاعر، صحافی، سیاسی لیڈر تھے بلکہ وہ ایک دور اندیش انسان بھی تھے..
مثال کے طور پر تقسیم ہند کے وقت انہوں نے جو تقریر جامع مسجد کے سیڑھیوں سے کی وہ ان کی دور اندیشی کی ایک عمدہ مثال ہے آپ نہیں مانتی کہ پاکستان جب سے ایک ملک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھر کر آیا تب سے لیکر آج تک سب سے زیادہ مسلم مزہبی رہنما چاہے وہ کسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں پاکستان میں مزہب کے نام پر جام شہادت نوش فرما چکے ہیں .
یہ تھوڑی تلخ کلامی عمران کی طرف سے ہوگئ لیکن شاریہ نے فقط جی کے سوا کچھ زبان سے نہیں نکالا کیونکہ عمران کی یہ تلخ کلامی حقیقت پر مبنی تھی
ہندوستان میں مولانا آزاد کو آزادی کے بعد حکومت ہند نے وزیرتعلیم بنایا لیکن مسلم قوم کا آج بھی ایک بڑا طبقہ مولانا آزاد سے بد ظن اور بد گمان رہتا ہے. اس لئے مولانا نے کہا کہ دنیا دس سال یا دس ہزار سال تک کیوں نہ رہے لیکن ہندوستان سے دو چیزیں کبھی ختم نہیں ہو سکتیں ایک غیر مسلم کا مسلم کے تئیں تعصب اور مسلمان کا اپنے رہنما کے تئیں بدگمانی جوگفتگو ایک مزاحیہ جملہ سے شروع ہوئی تھی اب اس نے ایک سنجیدہ گفتگو کی شکل اختیار کرلی تھی شاریہ کا بھائی بور ہو کر کار ہی میں سو گیا فیضان وہ کار چلا رہا تھا سو سکتا نہیں تھا اس لیے یہ بورنگ گفتگو جس کو شاریہ اور عمران لطف لے لے کر کر رہے تھے سننا مجبوری تھی
اور شاعر شاریہ تیسرا سوال کرڈالا
پہلے یہ بتاؤ کہ آپ کو شاعری وغیرہ سے شغف وغف ہے یا نہیں
ارے بہن جی خود شاعرہ ہیں فیضان نے عمران کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کیا اور انہی کی وجہ سے تو ہم مشاعرہ میں آنا پڑا ورنہ مجھے کسی پاگل کتے نے کانٹا ہے جو میں مشاعرہ سننے آؤں اور اپنا وقت خراب کروں
ماشاءاللہ...
اگر ایسا ہے تو آپ اچھے سے سمجھ سکتی ہیں شاعروں نے اپنے فن کے ذریعے نہ صرف اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے بلکہ ان لوگوں کی بھی کی ہے جو اپنے جذبات کا اظہار اپنے لفظوں میں نہیں کر سکتے کیونکہ تخلیق جیسی نعمت ہر کسی کو نہیں ملتی یہ اللہ کا پیش قیمت عطیہ جو ہر کسی وہ عطا نہیں کرتا
غالب کا مشہور مصرع ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
کیسا آفاقی مصرع کہ آج کے اس ماڈرن دور میں بھی بولا اور پڑھا جاتا ہے
اور اقبال کی نظمیں دیکھئے
پرندے کی فریاد
شکوہ
جواب شکوہ
دعا.. لب آتی ہے،،،
وغیرہ وغیرہ
اور یہ سلسلہ غالب اور اقبال تک محدود نہیں اردو شاعری میں ایسی لاتعداد مثال موجود ہیں
جو انسان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں
لیکن کوئی کہتا شاعر پاگل ہو تا
دیوانہ ہوتا
شاعری کرنا بے کار لوگوں کا کام ہے. شاعروں کی بخشش نہیں ہوگی
ارے ایسے کیسے نہیں ہوگی یار تم تو دل پر لے گئے اترو گاڑی سے باقی ادبی بحث و مباحثہ کار کے اندر نہیں گھر کے اندر کرنا تم دونوں فیضان نے ہماری گفتگو کا تسلسل توڑا اور ہم کار سے اتر کر گھر میں داخل ہوئے
عائشہ..
مجھے اس بات کا خیال تک نہیں آیا کہ اتنی دیر سے میں گردن گھماکر شاریہ محو گفتگو تھا
اچھا عائشہ جواباً کہا. پھر آگے کیا ہوا اور ایک سوال عمران سے اور کر دیا
عمران نے غور کیا کہ عائشہ کا تجسس کہانی سننے کے لئے بڑھتا جارہا ہے
رات بہت ہوگئ تھی اور ہم سب رات کے کھانے سے فارغ تھے عبداللہ پر اب تک نیند کا غلبہ تھا اور فیضان پر نیند کا اثر ہونے لگا تھا. شاریہ بھی تھکی تھکی سی لگ رہی تھی
اگر کوئی تھا جس پر ان سب کا اثر نہیں تھا وہ میں تھا جبکہ میں لکھنؤ سے دہلی کا سفر کرکے گیا اور ایک منٹ کے لئے بھی آرام مسیر نہیں ہوا تھا لیکن شاریہ سے گفتگو کرنے سے نہ جانے میرے جسم میں کہاں سے توانائی آگئ جس کی وجہ سے نہ مجھ پر نیند کا غلبہ تھا نہ تھکاوٹ کا اثر لیکن سونا بھی تھا
اس لئے اس رات سب جاکر اپنے اپنے کمروں میں سوگئے میرا بستر فیضان کے کمرے لگایا گیا آنکھوں سے بھلے نیند غائب تھی لیکن جب آئ تو دن کا بھی نصف حصہ لے گئ، کسی نے میری نیند خلل نہیں ڈالا اس لیے سب جانتے تھے کہ میں دن بھر کا چلا ہوا اور دیر رات کا جاگا ہوا ہوں
تقریباً 12بجے میری آنکھیں کھلیں فیضان ٹہلتا ہوا آیا مجھے جگا دیکھ کر بولا اٹھ گیے شاعر صاحب چلیے جلدی فریش ہوجائے ناشتہ کر کے چلنا ہے
کہاں؟؟
بلی ماراں
چچا غالب کی حویلی پر
لیکن کیوں؟ ایسا نہیں تھا کہ میں غالب کی حویلی دیکھنا نہیں چاہتا تھا لیکن میں بہت بار دیکھ چکا تھا اس لیے پوچھا
شاریہ بی نے خواہش کی
شاریہ
ہممم
شاریہ کا نام سنتے نہ جانے کیسے جسم سے ساری سستی کاہلی کافور ہوگئ اور میں فقط پندرہ منٹ میں تیار ہوکر ناشتہ کی ٹیبل پر پہچ گیا.
کچھ دیر کے بعد ہم فیضان کے فلیٹ سے نکل چہل قدمی کرتے ہوئے جامعہ مسجد کے بائے جانب والے دروازے تک آگئے اور وہاں دو حصوں میں تقسیم ہوگیے
دو حصوں میں کیوں عائشہ برجستہ عمران سے پوچھا
دو حصوں میں اس لیے کہ شاریہ بلی ماراں غالب حویلی دیکھنا چاہتی تھی جبکہ اس بھائی عبداللہ لال قلعہ، قطب مینار، انڈیا گیٹ جانا چاہتا تھا جو کہ بلی ماراں سے بالکل مخالف راستے پر تھا. وقت پہلے ہی زیادہ ہو چکا تھا اس لیے
فیضان اور عبداللہ لال قلعہ. قطب مینار، دیگر مقامات کے لیے نکل گیے اور ہم غالب کی حویلی بلی ماران کے لیے
واہ وکیل صاحب آپ کی تو لاٹری لگ گئی بلے بلے عائشہ نے مزاحیہ اور طنزیہ دونوں طرح سے عمران پر تبصرہ کیا. جواب میں عمران مسکرا دیا اور کہانی جاری رکھی..
اس وقت محلہ بلی باراں، گلی قاسم جان کے لیے کوئی سواری کرنا ایک احمقانہ فیصلہ ہوگا ایسا کیوں؟شاریہ عمران سے کہا خود ہی دیکھ لو شاریہ کی جیسے ہی نظر چاوڑی بازار کے جم غفیر پر گئ اففف اتنا رشک کوئی تہوار ہے کیا نہیں تو پھر اتنی بھیڑ کیوں؟؟ یہ روزانہ کی بھیڑ ہے یہ ایک قدیم بازار ہے اور ہمیں اسی بازار کو پار کرکے چچا غالب کی حویلی جانا ہے دوسرا کوئ راستہ نہیں شاریہ نے عمران سے پوچھا میرے علم میں تو نہیں البتہ فیضان کے علم میں ہوسکتا ہے کہ ہو اور وہ ہمارے ساتھ نہیں ویسے پیدل سے بھی زیادہ دور نہیں گفتگو کرتے کرتے ہم آسانی سے پہچ جائے گے. اگر ایسا ہے تو چلیے چلتے ہیں
آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے
چلتے چلتے شاریہ گفتگو کا آغاز عمران سے اس سوال کے ساتھ کیا.
میں نے بی۔اے،ایل۔ایل۔بی کیا ہے
کہاں سے؟؟
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے علی گڑھ سے
فی الحال کیا کر رہے ہیں
پریکٹس کر رہا ہوں آلہ باد ہائی کوٹ میں
لیکن فیضان بھائی تو کہ رہے تھے کہ آپ لکھنؤ سے آئے ہیں
وہ صحیح کہہ رہا تھا دراصل میں گزشتہ ایک ہفتے سے لکنھؤ میں تھا ایک رشتہ داروں میں شادی تھی اور جب مشاعرے کا دعوت نامہ موصول ہوا اس وقت میں لکھنؤ میں ہی تھا میں دہلی کے لیے روانہ لکھنؤ سے ہوا نہ کہ آلہ آباد سے
اور تمہاری تعلیمی لیاقت شاریہ
عمران نے اپنے جواب کی تکمیل کے فوراً بعد شاریہ سے اس کی تعلیمی لیاقت پوچھ لی
میری تعلیمی لیاقت....
میں نے گزشتہ سال بی۔اے کیا ہے جناح یونیورسٹی سے
مضمون
مطلب؟؟
مطلب کس مضمون میں آپ نے بی۔اے کیا ہے
ہمارے یہاں کسی خاص موضوع سے گریجویشن نہیں ہوتا مختلف مضامین ہوتے ہیں
جیسے..
ایک زبان مادری ہوتی ہے
جیسے میری مادری زبان پنجابی ہے اس لیے میرے پاس پنجابی تھی
ایک اردو کیوں کہ مجھے شاعری کا شوق ہے جیسا کہ کل فیضان بھائی نے بتایا تھا
اور ایک انگریزی
اس کے علاوہ ایک مضمون دینیات اور ایک تاریخ کا بھی تھا
اب آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے
اب تک تو ایم۔اے اردو کا تھا لیکن اب سوچ رہی ہوں کہ وکالت کرلوں
ایسا کیوں؟؟
کیونکہ وکلا ایم اے والوں سے اچھی شاعری کرتے ہیں شاریہ عمران کی طرف دیکھتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے یہ بات کہی
میرا اور میری شاعری کا مزاق بنا رہی ہوں
نہیں نہیں با خدا ایسا نہیں ہے اس نے اپنی گردن کو دو انگلیوں سے پکڑ تے ہوئے کہا کہ واقعی آپ بہت اچھی شاعری کرتے ہیں
نوازش...
اچھا ایک بات بتائیں کہ آپ غالب کو بڑا شاعر مانتے ہیں یا اقبال کو؟؟
دونوں کو
کیا دونوں کو؟؟
جی.. دراصل غالب اور اقبال دونوں کا اسلوب منفرد ہے اس لیے دونوں کا موازنہ کرنا درست نہیں
اچھا. جناب اور کتھے دور چلنا ہوگا مرزا غالب کی حویلی کے لیے
شاریہ اسی پنجابی لہجے میں عمران سے پوچھا جس کا ذکر اس نے عائشہ سے اس کے تعارفی کلمات کے دوران کیا تھا
بس اگلی ہی گلی ہے
چلیے تو پھر غالب کی حویلی تک پہچتے پہچتے کچھ غالب کے اشعار ہوجائے آپ کی زبانی
اچھا
جی
اگر میں غالب کا کلام نہ سنا کر غالب پر لکھی گئ (گلزار) ایک عمدہ نظم سناؤ تو چلے گا
کیوں نہیں چلے گا بلکہ دوڑےگا
سنائیں سنائیں
نظم
بلی ماراں کے محلے کی وہ پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیاں
سامنے ٹال کے نکڑ پر بٹیروں کے قصیدے
گڑگراتی ہوئ پان کی پیکو میں وہ داد وہ واہ واہ
چند دروازوں پر لٹکے ہوئے وہ بوسیدہ سے کچھ ٹاٹ کے پردے
ایک بکری کے
ممیانے کی آواز
اور دھندلا ہوئے شام کے بے نور اندھیرے
ایسے دیواروں سے منھ جوڑ کر چلتے ہیں یہاں
چوڑی والان کے کٹرے بڑے بیچ ایسے
اپنی بجھتی ہوئ آنکھوں سے دروازے ٹٹولے
اسی بے نور گلی قاسم سے
ایک ترتیب چراغوں کی شروع ہوتی ہے
ایک پرانے سخن کا صفحہ کھلتا ہے
اسداللہ خاں غالب کا پتہ ملتا ہے
(گلزار)
واہ واہ جناب نے تو میرے تجسس میں اضافہ کر دیا اب کتنی دور رہ گیا محلہ بلی ماراں، گلی قاسم جان اور اس میں بنی مرزا اسداللہ غالب کی حویلی
بلی ماراں میں تو ہم داخل ہو چکے ہیں بس مشکل سے پانچ منٹ کی مسافت کے بعد گلی قاسم جان اور دو یا تین منٹ کی مسافت کے حویلی مرزا اسد اللہ خان غالب
عمران نے جو جو وقت مسافت کے شاریہ کو بتائے ٹھیک اسی وقت پر وہ غالب کی حویلی میں انٹری کر چکے تھے
کہتے ہیں کہ اب یہ حویلی ویسی نہیں رہی جیسی غالب کے زمانے میں تھی کیونکہ اس نے بہت انحطاط والے دور دیکھے
1857کی بغاوت کی ناکامی کا دور
ہندوستان کے بادشاہ کی جلاوطنی کا دور
اور آزادی کے بعد تقسیم ہند کا دور
لیکن اس حویلی کو سب سے بڑا نقصان نہ انگریزوں نے پہچایا
نہ آزادی کے بعد سیاسی جماعتوں نے بلکہ اس حویلی کو سب سے بڑا اور سب زیادہ نقصان مسلمانوں نے پہچانا اس پر قبضہ کرکے آج بھی جب عمران اور شاریہ جب حویلی میں داخل ہوئ تو اس کے نصف حصہ پر ایک مسلم گھرانے کا قبضہ ہے
... اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے،،
باقی نصف حصہ میں ایک چھوٹا ساصحن جس میں بڑے سے ایڈ والے بوسٹر غالب کا حقہ نوش فرماتا فوٹو
سیدھے ہاتھ والے کمرے میں غالب کا مٹی کا بنا مجسمہ اور کچھ پرانی تصاویر غالب کی اس حویلی کی جس میں ہم موجود تھے اور کچھ آگرہ والی حویلی کیں جو میں نے آج تک نہیں دیکھی اور ایک کمرہ صحن کے بالکل سامنے تھا جس میں غالب کے کلام کے کچھ نسخے موجود تھے جو ٹائپنگ شدہ نہیں بکلہ ہاتھوں سے تحریر کئے ہوئے تھے
شاریہ اور عمران نے غالب کے نسخے اور حویلی کی کچھ تصاویر لیں اور کچھ تصاویر سیلفی کی صورت میں بھی تھیں اور ڈائری سے ملیں تصاویر میں شاید کچھ تصاویر وہ سیلفیاں بھی تھیں جو عمران نے شاریہ کے ساتھ غالب کی حویلی اور دہلی کے دیگر مقامات پر لیں تھیں.اس لئے عائشہ کی زبان سےبے غیرتی، عیاشی جیسی. الفاظ روانی کے ساتھ نکلے .
غالب کی حویلی کے بعد اب شاریہ کی خواہش تھی غالب کی قبر اور آستانہ محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیاء کی زیارت.
آگے کی مسافت اور دیگر موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے عمران و شاریہ جامعہ مسجد دہلی پہچ گیے. چلو بستی نظام الدین پہچنے سے پہلے تم کو دہلی جامعہ مسجد اندر سے دکھاتے ہیں اور وہ مقام بھی دکھاتے ہیں جہاں سے مولانا ابوالکلام آزاد نے تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کو مخاطب کیا تھا اور پاکستان جانے سے روکا تھا اور وہ مقام بھی دکھاتے ہیں جہاں اورنگزیب عالمگیر نے ایک بزرگ حضرت سرمد کو اناالحق کے ورد کی وجہ شہید کر دیا اب اس کی تاریخی حقیقت کیا ہے یہ ہم نہیں جانتے لیکن قصہ یہی مشہور ہے جو ہم نے آپ کو بتایا
عمران یہ سب باتیں کرتے ہوئے جامعہ مسجد کے اس دروازے سے داخل ہوئے جو فیضان کے فلیٹ دریاگنج کی جانب کھلتا ہے اور ان مقامات سے گزرتے ہوئے جن کا ذکر ابھی کچھ دیر پہلے ہوا تھا صدر دروازے باہر نکل آئے اور بستی نظام الدین کے 205 نمبر کی بس کا دونوں ویٹ کرنے لگے دفعتاً عمران کو خیال آیا کیوں نہ بس کی جگہ آٹو رکشہ سے بستی نظام الدین چلا جائے اور شاریہ کے ساتھ یکسوئ سے زیادہ وقت گزارا جائے.
عاشق کا جنازہ ذرا دھوم سے نکلے
عائشہ نے مسکراتے ہوئے تھوڑا طنزیہ انداز میں یہ مصرع عمران کے سامنے پڑھا
عمران نے عائشہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی گفتگو جاری رکھی
یہی سب سوچتے ہوئے عمران نے ایک آٹو رکشے والے کو روکا اور شاریہ کے ساتھ بستی نظام الدین کے لیے روانہ ہوگیے بلی ماراں جاتے ہوئے دھوپ تیز تھی جبکہ نظام الدین جاتے ہوئے سورج کی تپش میں بڑی حد تک کمی آگئی تھی اس کی وجہ شاید شام کے وقت کا آغاز تھا اوٹو نے بس کے با نسبت جلدی بستی نظام الدین پہچا دیا بظاہر یہ اچھی بات تھی لیکن عمران کو اتنی جلدی پہچنا دلی طور پر اچھا نہیں لگا مگر اب تو آ گئے تھے. بستی نظام الدین میں داخل ہوتے ہوئے شاریہ کو ایک ہی طرح کے لوگوں کا جم غفیر دیکھنے کو ملا وہ قد کاٹی، رنگ روپ، سے تو مختلف تھے لیکن لباس تقریباً سب کا ایک جیسا تھا لامبا لامبا کرتا ٹخنوں سے اونچا پاجامہ ، ہاتھ میں تسبیح، مسواک، یہ کون لوگ ہیں عمران ایک ہی خانوادے کے معلوم ہوتے ہیں.
یہ تبلیغی جماعت کے والے ہیں جو رنگ و روپ، قد کاٹی سے ضرور مختلف ہیں ہیں لیکن مسلکی اور جماعتی لحاظ سے ایک خانوادے کے ہیں. اور وہ بلڈنگ عمران نے ایک بڑی سی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ جو عمارت دیکھ رہی ہو یہ تبلیغی جماعت کا مرکز ہے جس کو مرکز نظام الدین کہتے ہیں
اچھا یہ مرکز نظام الدین ہے بہت سنا ہے اس کے بارے میں
کہاں؟؟
اپنے تاشقند میں
لیکن میں نے سنا ہے تمہارا تعلق تو لاہور سے
لاہور شہر ہے اور تاشقند گاؤں ہے لیکن ضروریات زندگی کی ہر چیز مہیا ہے تاشقند میں
اور یہ رائے وینڈ کہاں ہے سنا ہے لاہور کے پاس ہے
رائے وینڈ لاہور سے چھوٹا ہے آپ اگر رائے وینڈ جانا چاہتے ہیں تو آپ کو لاہور ہو کر ہی جانا ہوگا میرا ایک کلاس میڈ عرفان جو تبلیغی جماعت میں بہت مستعدی کے ساتھ لگا ہوا ہے ایک مرتبہ بتارہا تھا کہ بھارت کے لوگوں کے رائے وینڈ آنے کے لیے پہلے لاہور کا ویزہ لینا پڑتا ہے وہ یہ بھی بتا رہا تھا کہ ہر سال سالانہ تبلیغی اجتماع میں بھارت کے مختلف شہروں سے لوگ رائے وینڈ کے اجتماع میں شرکت کرتے ہیں اسی کی زبان سے میں مرکز نظام الدین کا بارہا نام سنا
ہم ایسی ہی گفتگو کرتے کرتے جب غالب کے مزار پر پہچے تو گارڈ نے ہمیں اندر جانے سے روک دیا کیونکہ غالب کا مزار کھلنے کا وقت 5 بجے تک تھا اور ہم 15 منٹ تاخیر سے پہچیے میرے کافی اسرار کے بعد گارڈ اپنے بی حاف پر صرف 10 منٹ دیئے ہم گاڈ سے وعدہ کے مطابق 10 منٹ میں ہی باہر گیے غالب کے مزار کے بعد ہم محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیاء کے آستانے پر حاضری دی غالب اور محبوب الہی کے مزار کے درمیان غالب اکیڈمی ہے لیکن وہ بند ہوچکی تھی جیسا کہ ہمیں گاڈ نے پہلے ہی بتادیا تھا
بستی نظام الدین سے لوٹنے پر ہمارا ارادہ دہلی جامعات گھومنے کا تھا. مثلاً. جامیہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، وغیرہ وغیرہ لیکن فیضان کے فون آنے کے بعد ہمیں واپس فلیٹ کا رخ کرنا پڑا. اور جب ہم دریاگنج پہنچے اس وقت عشاء کی اذان ہو رہی تھی
رات کے کھانے کے بعد دن بھر کی مصروفیات پر گفتگو ہوئی اور اگلے دن کا پروگرام رات ہی کو طے ہوگیا اور اس بار بھی پھر ہم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے اور اس بار بھی یہ طے ہوا کہ کل میں اور شاریہ لال قلعہ، قطب مینار، انڈیا گیٹ، جیسے مقامات پر ساتھ جائے گے اور عبداللہ شاریہ کا بھائی اور فیضان ساتھ ہوں گے...
آپ کے تو من لڈو پھوٹنے لگے ہونگے فوراً عائشہ ایک بار پھر طنزیہ انداز میں عمران سے کہا
یہ طنز عمران کو اور طنزیہ جملوں سے زیادہ ناگوار گزرا لیکن اس نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا.... لیکن عائشہ کا طنز حقیقت پر مبنی تھا واقعی عمران کے من ہی من لڈو پھوٹ رہے تھے
آج عمران کی آنکھوں سے نیند غائب اور منفی خیالات تو اتنے دور تھے کہ عمران کی آنکھیں اور ذہن خوردبین سے بھی اس کا تعاقب کرنے سے قاصر تھا. رات کے کھانے کے بعد بھی جب سب لوگ ہال کمرے میں بیٹھے تھے تو عمران کی آنکھیں صرف اور صرف شاریہ پر جمی ہوئی تھیں اور اس دماغ آج کے خوبصورت گزرے لمحات میں گردش کررہا تھا. کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ
( عشق ایک سے آشنا کرکے سب ناآشنا کردیا ہے)
کیا کہا عشق عائشہ عمران سے حیرانگی کے ساتھ دریافت کیا
ہاں عشق..
واہ جناب بندی نے تو ایسا کوئی کام نہیں کیا اب تک جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ وہ عشق کرتی ہے.
میں یہ کب کہا کہ وہ مجھ سے عشق کرنے لگی تھی میں تو بس اپنے یک طرفہ عشق کا ذکر آپ سے کیا عائشہ جی
آگے کیا ہوا عائشہ نے عمران سے دریافت کیا
اگلے دن جیسا کہ پروگرام سیٹ ہوا تھا ہم سب دو حصوں میں تقسیم ہو گئے میں اور شاریہ دہلی کے مختلف مقامات، عمارات جامعات گھومنے کے لیے نکل گیے جبکہ فیضان اور عبداللہ ان مقامات پر گیے جہاں ہم ایک روز پہلے گھوم آیے تھے
دن بھر دہلی کے مختلف مقامات. عمارات، جامعات گھوم کر جب ہم واپس ہوئے تو رات کے بعد شاریہ کے خالو یعنی فیضان کے والد نے شاریہ اور اس کے بھائی عبد اللہ سے مخاطب ہو کر کہا پرسو ں تم دونوں کو واپس پاکستان جانا ہے بس کے ذریعے
فیضان کے والد کی زبان لفظ واپس نے عمران کے ڈھائی دن کی محبت کے اس قلعے کو گرا دیا جس کی بنیاد ان خوبصورت لمحات پر عمران نے رکھی تھی جو اب تک شاریہ کے ساتھ گزرے
کیوں خالو ریل سے کیوں نہیں عبداللہ نے فیضان کے والد سے پوچھا
بیٹا ٹرین کی ٹکٹ کا انتظام نہیں ہو پایا اور ویسے بھی بس کا سفر زیادہ محفوظ ہے بانسبت ٹرین کے اور تمہارے ساتھ شاریہ بھی ہوگی اور آج کے دور میں ٹرین کا سفر محفوظ نہیں رہا.
ویسے پرسو کب نکلنا خالو جان
صبح آٹھ بجے اس لیے تم لوگ پیکنگ وغیرہ سے کل رات تک فارغ ہوجانا. کیوں کہ اگر یہ نکل گئی تو اگلا ٹکٹ ملنے میں ایک ماہ لگ سکتا ہے
ایسا کیوں خالو جان
کیونکہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے ہیں اس لیے دونوں طرف کی عوام اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، اگر میرے اور اپنی خالہ جان کے دل سے پوچھو تو ہم تم کو ابھی جانے ہی نہ دیں لیکن کل تمہارے والد صاحب کا فون آیا تھا انہوں نے بتایا کہ اگلے ماہ شاریہ کا ایم۔اے اینٹرنس کا امتحان ہے اور تمہارا بی ایس سی کا اس لیے ہم نے ہاں کردی
عبد اللہ اور خالو جان کے درمیان ہونے والی گفتگو میں فیضان برابر کا شریک تھا جبکہ عمران اور شاریہ ایک دوسرے نگاہوں نگاہوں کی گفتگو میں ملوث تھے
دل کی دھڑکنیں تیز تھیں اور جسم کے تمام اعضاء دونوں کے ساکت لیکن ایک آنکھ سے نکلنے والے پانی کو دونوں میں سے کوئی نہ روک سکا اور یہ ایسا اظہار محبت تھا جس نہ پلکیں جھبکی، نہ زباں نے حرکت اور نہ ہی ہاتھوں نے کوئی اشارہ کیا لیکن محبت آنسوؤں کے ذریعے اپنے اظہار راستہ تلاش کر لیا تھا، ایک عشقیہ کہانی ابھی پوری طرح اپنی ابتدا بھی نہ کرپائی تھی کہ ایک ناکام اختتام نے اسے اپنے آغوش لے لیا
اتوار کا دن جو شاریہ اور عبداللہ کی واپسی کے درمیان حائل تھا وہ عبداللہ کے لیے پر مسرت رہا جبکہ شاریہ اور عمران کے لیے مایوس کن اور ناخوشگوار ثابت ہوا سارا دن سامان کی پیکنگ اور ہندوستانی مٹھائی کے بندوبست میں گزر گیا اس کے علاوہ سب لوگ شاریہ اور عبداللہ کو انفرادی طور پر تحائف دے رہے تھے. شاریہ کی خالہ نے اس کو ہندوستانی پنسورہ، چھبیس سورتیں مومن کا ہتھیار جیسی وظائف والی کتابیں دیں. جبکہ خالوجان نے اس کو ایک گھڑی اور فیضان نے ڈائری اور عمران نے ایک کتاب ان سبھی افراد نے عبداللہ کو بھی کچھ نہ کچھ تحائف دئیے اور سب کے تحائف کھولے ہوئے تھے جبکہ عمران کا تحفہ لال رنگ کے کاغذ سے پیک کیا ہوا تھا
اور عمران نے شاریہ کو یہ تحفہ اکیلے میں دیا تھا
کیا اسے میں ابھی دیکھ سکتی ہوں
بالکل
یہ 24 گھنٹے پہلا جملہ تھا جو شاریہ نے عمران سے کہا
پیکنگ کھولتے ہی تحفہ دیکھ کر شاریہ کو بڑی حیرت ہوئی
(نسخہ ہائے وفا)
تم کو کیسے معلوم کہ مجھے فیض احمد فیض کی شاعری پسند اور تم نے یہ کتاب کب خریدی کل یا آج صبح لے کر آئے ہو
نہیں نہیں آج نہیں لے کر آیا
اس دن جب ہم غالب کی حویلی گیے تھے تو راستے میں تم نے غالب اور اقبال کے علاوہ سب سے زیادہ جس شاعر کی شاعری پر بات کی وہ فیض صاحب تھے
اور خرید ی کب؟؟
اسی دن واپسی میں جب میں نے تم سے کہا 10 منٹ ویٹ کرو میں ابھی آتا ہوں تبھی میں تم کو ریسٹورنٹ میں چھوڑ کر وکیل والی گلی میں چلا گیا تھا جہاں ایجوکیشنل بک ہاؤس کا شوروم ہیں. وہی سے یہ کتاب خرید کر لایا اور اپنے بیگ میں رکھ لی
لیکن میں نے تو تمہارے لیے کوئی تحفہ نہیں لیا
بدلا چکانا ضروری تو نہیں یا پھر تم مجھے اب تک اجنبی گردان رہی ہو
نہیں نہیں ایسا بالکل نہیں ہے
تو پھر کیسا ہے
ارے بھئ تمہاری یہ کتاب میرے پاس ہمیشہ رہے گی اور تمہاری یاد یا تمہارے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کراتی رہی گی لیکن تم مجھے کس طرح یاد رکھوگے؟؟
یاد انہیں کیا جاتا ہے جن کو بھلانے کا ارادہ ہو یا وہ آپ کے بس تعلقات، معاملات یا جنسیات کا حصہ ہوں اور جو آپ کے وجود کا حصہ ہو اسے کیسے بھلایا جا سکتا ہے؟؟
ارے، ارے تم تو سیریس ہوگیے ایک بات کہوں
کہو
تم وکالت اور شاعری کے علاوہ فلسفہ کا بھی علم کا فی رکھتے ہو تبھی ذرا ذرا سی بات پر فلسفہ شروع کردیتے ہو
شاریہ، شاریہ، شاریہ
خالہ جان کی آواز سن کر جواب میں جی خالہ جان
کہاں ہو تم؟؟
بالکونی میں
بیٹا ذرا نیچے آؤ
ابھی آئی خالہ جان
تمہارا تحفہ ادھار رہا لیکن انشاءاللہ پاکستان جانے سے پہلے مل جائے گا تاکہ تم ہمیں ہر زاویہ سے یاد رکھو
شاریہ نے سیڑھی سے اتر تے ہوئے عمران سے کہا
اچھا
ہممم
اب ہجر کے ایام کے آغاز رات کی تاریکی حائل تھی دن تو گزر چکا تھا اگلے دن صبح 9 بجے کی بس تھی
اس لیے سارا گھر رات کو جلدی سوگیا لیکن شاریہ اور عمران کی آنکھوں سے نیند خفا تھی اور دونوں کے اذہان میں سوالات کا اتنا ذخیرہ تھا اگر ان کو کتابی شکل دے دی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے
دونوں کی رات جاگتے ہوئے گزری سوائے ان لمحات کے جو تھکاوٹ کے سبب نیند کے آغوش میں چلے گیے
اگلے صبح شاریہ نے موقع محل دیکھ کر اور عمران کو اکیلا پاکر ایک تحفہ اس تاکید کے ساتھ دیا کہ اس کو اس کے یہاں سے جانے کے بعد کھولیں
عبداللہ، شاریہ کے ساتھ وہاگا بارڈر تک عمران، فیضان اور خالو جان گیے
بس میں بیٹھ جانے اور بس چلنے تک بلکہ پاکستان کی زمین پر قدم رکھنے تک سب لوگ بوڈر پر کھڑے رہے
عمران بس کو اتنی غور سے دیکھ رہا تھا کہ گویا وہ بس نہیں شاریہ کو دیکھ رہا ہو
شاریہ کے جانے کے بعد عمران نے بھی علی گڑھ جانے کا ارادہ کر لیا بس کے ذریعے اور 2:30 پر وہ علی گڑھ کے لیے روانہ ہو گیا
3 گھنٹے کی مسافت کے بعد عمران علی گڑھ پہنچا جہاں اس نے اپنے درسی ساتھیوں کے ساتھ وقت گزارا لیکن اس کا ذہن اب تک شاریہ کے ساتھ گزرے لمحات میں ہی ملوث تھا
شام کے وقت جب وہ اپنے دوستوں کے یونیورسٹی کینٹین پر گپ شپ میں مبتلا دفعتاً اس کے موبائل پر رنگ ہوئی
السلام علیکم
کیا عمران عامی صاحب بول رہے ہیں
جی عمران عامی بول رہا ہوں
میں شمیم عباس ممبئی سے
کیسے ہیں آپ؟؟
الحمد اللہ آپ سنائیں کیسے یاد کیا
جناب والا آپ کو ایک زحمت دینی تھی
جی.. ضرور
دراصل ممبئ میں ندا اردو فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں بزرگ شعراء کے ساتھ ساتھ نوجوان شعراء کو بھی دعوت نامہ دیا جارہا ہے اگر آپ کو کسی طرح کی مشغولیت نہ ہو تو آپ تشریف لائے آپ کے آنے جانے قیام و طعام کے تمام اخراجات کی ذمہ داری فاؤنڈیشن اٹھائے گا
عمران نے موقع غنیمت جان کر ہاں کردی کیوں کہ اس کی چھٹیاں ابھی باقی تھیں اور شاریہ کے جانے سے اس کو مایوسی بھی تھی اسی وجہ سے اس نے دہلی سے علی گڑھ آنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن مایوسی سے اس کا یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑا تھا
اور وہ اگلے دن ہی علی گڑھ سے ممبئی کے لیے روانہ ہوگیا
سفر طویل تھا اور وہ تنہا اس لئے اس نے شاریہ کا دیا تحفہ یہاں دیکھنا مناسب سمجھا جو ابھی تک اس کے بیگ میں ویسے ہی رکھا تھا جیسا شاریہ نے دیا تھا کیونکہ شاریہ اس کو اس کے پیچھے کھولنے کو کہا تھا
جب عمران نے تحفہ کی پیکنگ کھولی تو اس کی حیرت کا
ٹھکانہ نہ رہا وہ ایک ڈائری تھی
جس کے پہلے صفحے پر( حکیم سنائی) کا یہ قول لکھا ہوا تھا
(عشق بازیچہ و حکایت نیست)
ترجمہ... عشق میدان ہے کھیل کا کوئی حکایت نہیں ہے..
اور اس سے اگلے صفحے سے ڈائری میں لکھی عبارات آغاز کچھ اس طرح سے ہوا
آج کا دن بہت اسپیشل رہا یوں تو مجھے انڈیا آئے پورا ایک ہفتہ ہوگیا. انڈیا اور پاکستان میں مجھے صرف نام کا فرق لگا باقی سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا پاکستان میں ہے دہلی کا مینا بازار لاہور کے بازار کی یاد دلاتا ہے اور یہاں کی جامعات بھی لاہور کی جامعات میں بھی کچھ زیادہ فرق نہیں لگتا دہلی جامعہ مسجد کے باہر کا ہجوم تو بالکل ویسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسا لاہور جامعہ مسجد کے باہر کا ہجوم ہوتا ہے
لباس بھی تقریباً ایک جیسا ہی ہے دونوں ممالک کا بلکہ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کا ہندو بھی اسی دلچسپی سے کرتا پاجامہ پہنتا ہے جیسا کہ ایک مسلم شخص پہنتا ہے یہاں پر تہواروں پر نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم بھی اپنے تہواروں پر کرتا پاجامہ کو فوقیت دیتا ہے اور حکمرانان بھی ہمہ وقت کرتا پاجامہ ہی زیب تن کیے رہتے ہیں
انڈیا آکر مجھے لگا کہ کچھ سمجھداروں اور دانشوروں اشخاص کی نادانی نے ایک خوبصورت اور بے داغ جسم کو داغ داغ کردیا، خیر جو ہوگیا اس کو یاد کرکے کیا فائدہ اب تو خدائےباری تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خوشگوار رہیں
آج صبح جب سو کر اٹھی تو میز پر جہاں مختلف زبانوں اخبارات رکھے رہتے ہیں وہاں ایک دعوت نامہ دیکھا جس پر فیضان بھائی کا نام لکھا تھا جب میں نے اسے کھولا تو وہ ایک مشاعرے میں شرکت کا دعوت نامہ تھا جو دہلی یونیورسٹی میں منعقد کیا جارہا تھا. میں نے فیضان بھائی سے اس میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی اول تو انہوں نے منع کردیا لیکن میرے اصرار پر وہ بعد میں راضی ہوگیے کہ شام میں تیار رہنا تم دونوں یعنی میں اور میرا حقیقی بھائی عبداللہ لطیف
میں بہت خوش تھی کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب میں ہندوستان کے کسی مشاعرے میں شریک ہونے جارہی تھی دادا ابا سے ہندوستان کے مشاعرے کے بارے بہت کچھ سن رکھا تھا اس لیے مجھے یہاں کے مشاعرے دیکھنے کی بڑی خواہش تھی
شام کو میں اور میرا چھوٹا بھائی فیضان بھائی کے ہمراہ دہلی یونیورسٹی پہچے جہاں میری پہلی ملاقات عمران عامی شخص سے ہوئ جو میرے کزن فیضان کا درسی ساتھی بھی رہ چکا تھا
رنگ سانولا، قد درمیانہ، آنکھیں سیاہ فام، بال ہندوستان کے مشہور شاعر کیفی اعظمی کی طرح تھے، گفتگو سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ کسی تہزیب یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتا ہے یا کسی ایسے ادارے سے تعلق رہا ہے جو تعلیم کے ساتھ ساتھ تہزیب پر بھی برابر توجہ دیتا ہے،، مشاعرہ شروع ہونے میں ابھی وقت تھا اور عمران کو بھی فریش ہونا تھا اس نے ہم سے اجازت لی اور مہمان خانے میں چلا گیا جہاں شعراء کی قیام و طعام کا انتظام تھا
جناب والا کہاں سے تعلق رکھتے ہیں میں نے عمران کے جاتے ہی فیضان بھائی سے پوچھا
بنارس...
تو جناب والا بنارس سے تشریف لائے ہیں
نہیں وہ رہنے والا بنارس کا ہے لیکن فی الحال آلہ آباد میں رہتا ہے
اچھا تو آلہ آباد سے تشریف آوری ہوئ ہے جناب کی
نہیں بھئ فی الحال وہ لکھنؤ سے آرہا ہے
افف میرے خدا.. آپ نے تو بھائ جان میرے سر میں درد کردیا آپ سے ذرا بندے کا تعارف کیا مانگ لیا آپ نے تو پورا ہندوستان ہی کی سیر کرادی
یہ تمہارے سمجھنے کی بھول ہے
اچھا
ہممم
سنو عمران کا آبائی وطن بنارس ہے جہاں اس کی ابتدائی تعلیم ہوئ، آلہ آباد وہ پریکٹس کرتا ہے ہائی کورٹ میں دراصل وہ پیشہ سے وکیل ہے اور علی گڑھ وہ شہر ہے جہاں اس نے وکالت کی کے ساتھ ساتھ شاعری کی بھی تعلیم حاصل کی لکھنا تو اس نے ہائی اسکول سے ہی شروع کردیا تھا جب وہ بنارس میں تھا لیکن علی گڑھ نے اس کی تخلیق کو وہ قوت و تقویت دی جس کی اسے تلاش تھی شاریہ ہندوستان میں علی گڑھ واحد ایسا شہر ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی واحد ایسا ادارہ ہے جس نے اردو ادب کو ایسے ایسے شعراء، فکشن نگار، نغمہ نگار، ادباء دئیے جو ساری دنیا میں اپنی انفرادیت کے سبب جانے اور پہچانے جاتے ہیں عمران عامی بھی اسی سلسلے کی کڑی کا حصہ ہے
علی گڑھ کا نام سنتے ہی میں جان گئ کہ عمران کی زبان و لہجے اتنی چاشنی، شائستگی، اردو لب و لہجہ کا رنگ کیوں ہے کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وہ واحد ادارہ ہے جو اپنی تعلیم سے زیادہ اپنی تہزیب کے لیے جانا جاتا ہے
سر چائے عمران ڈائری کے مطالعے میں اسقدر منہمک ہوگیا تھا کہ اس خیال ہی نہیں رہا کہ وہ ٹرین میں ہے یا گھر میں اس کے مطالعہ کا تسلسل تب ٹوٹا جب ٹرین کے خادم نے اسے چائے کے لیے پوچھا، چائے پینے کے بعد وہ ایک بار پھر سے ڈائری کے مطالعہ میں لگ گیا
کچھ دیر کے بعد مشاعرہ شروع ہوا عمران کالی شیروانی اور علی گڑھ کٹ پاجامہ اور ترکی ٹوپی کے ساتھ اسٹیج پر شعراء کی صف میں بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا. بیچ بیچ وہ اچھے اشعار پر شعراء کو داد بھی دے رہا تھا کوئی شعر پسند آنے پر مقرر کی آواز سب سے بلند اسی کی ہوتی تھی
کہتے ہیں کہ ایک عورت کے لاشعور میں ایک آئیڈیل مرد بستا ہے عورت اسی شخص کی طرف مائل ہوتی ہے جہاں اس کو اپنا آئیڈیل دکھائی دیتا ہے عورت کی ذات سب سے زیادہ اثر انداز ایک آئیڈیل شخصیت کرتی ہے ذات بات، مذہب، رنگ روپ ثانوی درجہ رکھتی ہیں
اکثر خواتین اسی طرف مائل ہوتی ہے جہاں ان کو اپنا آئیڈیل دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنے آئیڈیل کو کسی شاعر، ادیب، اداکار میں دیکھتی ہیں
صحیح معنوں میں مجھے آج ویلیم آسٹیکل کی تھوڑی عمران کو دیکھ کر سمجھ میں آئی اور میں پورے وثوق کے ساتھ کہ سکتی ہوں کہ عمران عامی اس آئیڈیل کا نام ہے جس کی اکثر خواتین کو جستجو ہوتی ہے
مشاعرے کے اختتام کے بعد فیضان بھائی کے اصرار پر عمران ہمارے ساتھ خالہ جان کے گھر آگیے وہ ہمارے ساتھ تقریباً 3 دن رہے یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ ہم ان کے ساتھ 3 روز رہے
میرے لیے وہ اوقات کسی خوشگوار لمحات سے کم نہیں جو میں نے عمران کے ساتھ گزارے وہ بلی ماراں کا چہل قدمی والا سفر وہ حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر حاضری، وہ مرکز نظام الدین اور چچا غالب کی آخری آرام گاہ دہلی کے وہ گلی کوچے جہاں میں عمران عامی کے ساتھ اکیلی تھیں اپنی محبت کے ساتھ اکیلی تھی نہیں نہیں محبت کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے آئیڈیل کے ساتھ
واہ واہ،، دونوں طرف تھی آگ برابر سی لگی ہوئ..
عائشہ نے ایک بار پھر مزے لیتے ہوئے عمران کو چھیڑا لیکن جناب عمران صاحب ایک مرد سے تو یک طرفہ محبت امید کی جا سکتی ہے پر ایک عورت ذات سے ایسی توقع کرنا ایک احمقانہ بات کے سوا کچھ بھی نہیں
محترمہ سے آپ نے ایسا کچھ کہا بھی نہیں اور محترمہ آپ کے عشق مبتلا بھی ہوگئیں واہ کیا بات ہے
کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہ دیا کرتے ہیں لوگ
خاموشی بھی ایک طرز گفتگو ہے دوستو
عمران نے غلام ربانی تاباں کا یہ شعر عائشہ کو سنایا اور پھر کہانی شروع کردی. وہ اب کہانی جلدی مکمکل کرنا چاہتا تھا کیونکہ عائشہ کی دلچسپی کے لیے یا اپنے اور عائشہ کے تعلقات خوشگوار بنانے یا ان کو تقویت دینے کے لیے وہ اپنے زخم تازہ کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا
میں یہ ڈائری اپنے ساتھ پاکستان لے جانا چاہتی تھی کیونکہ اس میں میرے وہ خوشگوار لمحات محفوظ ہیں جو میں نے عمران کے ساتھ گزارے یعنی اپنے آئیڈیل کے ساتھ. لیکن جب خلاف توقع عمران نے مجھے فیض احمد فیض کی کلیات( نسخہ ہائے وفا) تحفہ میں دی تو مجھے یقین ہوگیا کہ میری محبت یک طرفہ نہیں ہے، احساس نے تو دونوں طرف سے اظہار محبت کردیا تھا لیکن شاید زبان وہ معقول الفاظ اب تک نہیں ملے تھے جو محبت کا اظہار کر سکیں، میرے پاس عمران اتنے خوبصورت تحفہ کے بعد اس کو دینے کے لیے کوئی عمدہ تحفہ نہیں تھا عمران کی دلچسپی کتابوں میں ہے جیسا کہ فیضان بھائی نے مجھے بتایا اور ایک ذخیرہ کتابوں اس کے پاس ہے، اس لیے اس کو کوئی کتاب تحفہ میں دینا سورج کو دیا دکھانے جیسا ہوگا. جب میرے ذہن میں اس کی شخصیت کے مطابق کوئی تحفہ نہیں آیا تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں وہ لمحات جو عمران کے ساتھ گزرے اسی کو تحفہ میں اسے دے کر جاؤں گی چنانچہ میں نے وہ تصاویر جو عمران کے ساتھ لیں تھیں اس کی ایک ایک کاپی اور وہ ڈائری جس تحریری شکل وہ لمحات محفوظ تھے جو عمران کے ساتھ گزرے اس کو کل جانے سے پہلے عمران کو سونپ دوں گی اپنے پاکستانی فون نمبر کے ساتھ اور اس کے فون کا انتظار کروں گی
شاریہ لطیف
٥/اپریل /٢٠١٧ بروز دوشبنہ دہلی (انڈیا)
یہ تو بتا چل گیا کہ شاریہ نے اپنا فون نمبر اپنی ڈائری کے آخر میں لکھ دیا جو آپ کو مل گیا لیکن آپ کا نمبر شاریہ تک کیسے پہچا میں دو سال سے آپ کے ساتھ ہوں آپ بھلے کتنا بھی عشقیہ مجاز رکھتے ہوں لیکن آپ اپنے ہاتھ یا زبان سے پہل تو ہرگز نہیں کریں گے یہ میں دعوے سے کہ سکتی ہوں عائشہ نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنی بات کہی جس نے عمران کو بھی حیرت میں ڈال دیا تھا
وہ کیسے؟؟
ظاہر ہے جو شخص شادی سے پہلے ایک فون اپنی ہونے والی بیوی کو نہیں کرسکتا وہ کسی غیر ملک سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو کیا کرے گا بھلے وہ اس سے محبت کے کتنے دعوی ہی کیوں نہ کرے، ارے شادی سے پہلے کی بات کو تو چھوڑو تم کو تو شادی کے بعد بھی فون کرنے کی توفیق نہ ہوئی تب تک جب تک میں نے اپنی طرف سے فون نہ کیا تم کوچلو اب بتاؤ کہ شاریہ کے پاس تمہارا نمبر کس توسط سے پہنچا
دراصل جانے سے ایک دن پہلے رات کے کھانے کے بعد شاریہ نے مجھ سے میری کچھ غزلیں مانگی جو وہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی میں نے رات میں بیٹھ کر ایک ڈائری میں اپنی چند غزلیں، نظمیں تحریر کر کے اگلے دن اس کو دے دیں سمجھ گئی سمجھ گئی اور تم نے اپنا فون نمبر اس میں لکھ دیا ویسے ہی جیسے شاریہ نے لکھاتھا یار تمہاری محبت روحانی سے زیادہ الہامی معلوم ہوتی ہے یہ کہہ کر عائشہ زور زور سے ہنسنے لگی. کچھ دیر ہنسنے کے بعد عائشہ ایک بار پھر عمران سے مخاطب ہوئی آگے کیا ہوا پھر ایک دن شاریہ کا فون آیا اور موبائل پر باتوں کا سلسلہ چل نکلا جب اتنا سب کچھ ہو چکا تھا آپ دونوں کے بیچ پھر آپ نے شادی کیوں نہیں کی دراصل جب میں شاریہ سے ملا اس وقت ہندوستان میں نئی حکومت آئی اور کچھ دن بعد پاکستان کی کرسی پر بھی ایک نیا وزیراعظم بیٹھا ہم عام لوگوں کو چاہے وہ ہندوستان سے تعلق رکھتے ہوں یا پاکستان سے دونوں کو ان حکومتوں سے بہت امیدیں تھیں لیکن تقسیم کے وقت کی نفرتیں نسلاً بعد نسلاً منتقل ہوتی چلی گئیں جسے کئی حکومتوں نے بھی بدستور نہ صرف جاری رکھا بلکہ پہلے سے زیادہ نفرتوں میں اضافہ کر لیا دونوں ملکوں کی انانیت نے ہماری ڈھائی دن کی محبت کے قلعے کو کسی بوسیدہ عمارت کی طرح مسمار کر ڈالا۔
آپ کی آخری بار شاریہ سے بات کب ہوئ؟؟
ہماری شادی سے ایک دن پہلے
کیا کہا اس نے
کچھ نہیں بس ایک طنزیہ پیغام تھا
کیا!
لوگوں کی تو محبت بے وفا نکلتی ہے میرا تو آئیڈیل بے وفا نکلا
ابھی عائشہ اور عمران کے درمیان باتیں چل ہی رہی تھیں
ادھر عمران کچھ دیر کے لیے خاموش ہوا ادھر اچانک عائشہ کے درد زہ شروع ہوگیا عمران نے فوراً ایمبولینس کو فون کیا چند منٹ کے بعد ایمبولینس آگئی عمران عائشہ کو لیکر ہسپتال پہنچا ڈاکٹر نے کچھ چیک اپ کرنے کے بعد آپریشن کے لیے کہہ دیا جبکہ ایسی کوئی امید نہیں تھی عائشہ کی حالت کو دیکھتے ہوئے لیکن آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا بچہ اور زچہ دونوں کو جان کا خطرہ ہو سکتا تھا بقول ڈاکٹر عافیہ کے. ناچاہ کربھی عمران کو آپریشن کی اجازت دینی پڑی
جتنی دیر آپریشن چلا اتنی دیر عمران. عائشہ کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو کوسنے دینے لگا چند ساعتوں میں اس کو شاریہ کے ساتھ غائبانہ گزرا ایک سال اور عائشہ کے ساتھ گزرے دوسال کی تمام واقعات، لمحات، سمیٹ کر اس کی آنکھوں کے سامنے آگئے آج اسے احساس ہوا کہ زندگی کتنی چھوٹی ہے
کسی نے سچ کہا ہے کہ زندگی جب گزرنے پر آتی ہے تو گزر ہی جاتی ہے گزرنے سے پہلے لگتا ہے کہ یہ پہاڑ جیسی زندگی کیسے گزرے گی اور جب گزرجاتی ہے تو ایسا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کا کوئی افسانہ پڑھا ہے یا کوئی خواب دیکھا ہےعمران کے سامنے عائشہ کی دوسالہ قربانیاں گردش کرنے لگیں کہ کس طرح اس نے نہ صرف اپنے جسم کو بخوشی اور ایمانداری سے عمران کے حوالے کردیا بلکہ اپنی آتما تک عمران کو سونپ دی تھی جبکہ عمران جسمانی طور پر عائشہ کے ساتھ تھا اور روحانی طور پر شاریہ کے عمران خود کو اب منافق، دھوکہ باز، دغاباز، گردان رہا تھا
لیکن ان حالات کا ذمہ دار کلی طور پر نہ عمران تھا نہ شاریہ، اور نہ ہی عائشہ اگر کوئی ذمہ دار تھا تو گزرے زمانے میں بزرگوں کا وہ فیصلہ جس نے ملک تقسیم کرادیا اور تب سے اب تک نہ جانے کتنے شاریہ اور عمران جیسے جوڑے اس تقسیمی نفرت پر قربان ہو چکے تھے
مبارک ہو آپ کے لڑکی ہوئی ہے
ڈاکٹر عافیہ نے آپریشن وارڈ سے نکلتے ہوئے عمران کے ہاتھوں میں بچی تھماتے ہوئے کہا اور عائشہ کیسی ہے عمران نے ڈاکٹر عافیہ سے بچی کی طرف نذر التفات کرتے ہوئے پوچھا
وہ ٹھیک ہے ابھی کچھ وقت کے بعد آپ ان سے مل سکتے ہیں یہ کہ کر ڈاکٹر عافیہ دوبارہ آپریشن وارڈ میں چلی گئی
ادھر عمران اور اس کے اہل خانہ بچی کے ساتھ خوشیاں منانےلگے ادھر عمران کے موبائل کی گھنٹی بجی
السلام علیکم
وعلیکم السلام
دوسرے طرف فیضان تھا امریکہ سے
خیر و عافیت پوچھنے کے بعد دونوں نے بیک زبان کہا
ارے ایک خوشخبری دینی ہے
پہلے آپ پہلے آپ میں یہ طے ہوا کہ عمران پہلے اپنی بات کہے گا
ابھی کچھ دیر پہلے عائشہ نے ایک چاند سی بچی کو جنم دیا ہے
اچھا. بہت بہت مبارک ہو وکیل صاحب
اب تمہاری باری بتاؤ کیا خوشخبری سنانی تھی
ارے یار وہ لاہور میں میری کزن ہے نا شاریہ کل اس کا نکاح ہے
لفظ نکاح سن کر عمران کے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا لیکن اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے
واہ واہ بہت بہت مبارک کمزور آدمی اکثر لفظوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں یہی عمران نے کیا
عبداللہ کا فون آیا تھا اس نے بہت اصرار کیا میری اور تمہاری شرکت کے لیے لیکن میں نے دونوں کی طرف سے معذرت کرلی مجھے تو چھٹی ملنا مشکل تھی اور تمہیں ویزا
اچھا پھر بات ہوگی بھابھی کو میری طرف سے مبارک باد دینا انڈیا آکر ملتا ہوں تم سے
اللہ حافظ
فیضان جس کو خوشخبری کہہ رہا تھا دراصل وہی عمران کے ایک تلخ سچائی تھی جس نے اس کے اندر تک کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اب عمران کے پاس جسمانی اور روحانی طور پر عائشہ کا ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا نہ ہی کوئی سبب تھا اب عائشہ سے منافقت کرنے کا
ابھی عمران اسی کشمکش میں مبتلا تھا کسی نے آکر اس کاندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جاؤ عائشہ سے مل لو
وہ تیز قدموں کے ساتھ اس وارڈ کی طرف بڑھا جہاں عائشہ کو آپریشن کے بعد رکھا گیا تھا عمران سے قبل وہاں سب لوگ وہاں موجود تھے اور نام کو لیکر بحث چل رہی تھی
کسی نے کہا ذکیہ رکھ لو تو کسی فارحہ کہا سب اسی کو لیکر بات کر رہے تھے اس وقت موقع دیکھ کر عائشہ نے اشارے سے عمران کو اپنے پاس بلایا اور اس کے کان میں دھیرے سے کہا!!!
شاریہ کیسا رہے گا
عبدالمنان صمدی
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںشکریہ
جواب دیںحذف کریں