افسانہ جمال از عبدالمنان صمدی

افسانہ "جمال" از عبدالمنان صمدی


 سارے گھر میں ایک جشن کا سا ماحول تھا. سکینہ کو گھر کی بزرگ خواتین سر پر ہاتھ پھیر پھیر کے دعائیں دے رہی تھیں۔

سب کو امیدتھی کہ اس بار حیات خاندان کا ونش بڑھانے والا ضرور آئے گا اب کی بار سکینہ کی گود ایک چاند کے ٹکڑے سے ضرور بھر جائے گی۔

سکینہ بھی یہی چاہتی تھی کیونکہ دو لڑکیوں کی پیدائش پر اس کو جو دیکھنے اور سننے کو ملا اگر ایک بار اور ایسا سننے کو ملا تو وہ اس کی تاب نہیں لاپائے گی۔

ویسےبھی یہ آخری موقع تھا اس کے پاس کیوں کہ اس سے قبل دونوں بچے نورمل نہیں بلکہ آپریشن سے ہوئے تھے. وہ  بھی لڑکیاں اس لیے جو غذا بچہ کی ولادت کے بعد ایک زچہ کو دی جاتی ہے وہ سکینہ کو نہیں دی گئ بلکہ اسکو طرح طرح کے طعنے سننے پڑے تھے جبکہ وہ دونوں ہی بار آپریشن جیسی قیامت سے گزری تھی۔

خیر وہ گزری باتوں کو یاد کرنا نہیں چاہتی تھی اس لئے اس نے آنے والے کی تیاری میں کلی طور پر خود کو مصروف کردیا.. سسرال والے بھی اس کا پورا پورا خیال رکھ رہے تھے اور ولادت کے ایسے دن گن رہے تھے جیسے عیدین کے گنے جاتے ہیں۔

وقت گزرتا گیا اور ولادت کا دن قریب آتا گیا آخر کار وہ دن بھی آگیا جب سکینہ کے درد زہ پوری شدت کے ساتھ ہوا اور جلدی سے محلے کی ایک ڈاکٹر حنا کو بلایا گیا جو شروع سے ہی سکینہ کا کیس دیکھ رہی تھی۔

ادھر ڈاکٹر حنا کو بلانے کوثر بی نے اپنے چھوٹے بیٹے عارف کو بھیجا ادھر سکینہ کی ددیا ساس اپنی بڑی پوتی آمنہ کو دائی اماں کو لینے کے لیے دوڑا دیا.. جوکہ قریبی محلے عالم سرائے میں رہتی تھی۔

ڈاکٹر حنا اور دائی اماں دونوں وقت پر آگئیں..

اور کچھ وقت کے بعد سکنیہ نے ایک چاند کو جنم دیا.. ڈاکٹر حنا فوراً کمرے سے باہر آئی اور سب کو خوشخبری دی.. سب جشن منانے لگے لیکن دائی اماں جب دیر تک کمرے سے باہر نہیں آئیں تو سکینہ کی ددیا ساس نے ان کو طلب کیا.. ڈاکٹر حنا جس قدر خوشی کے ساتھ کمرے سے باہر آئی تھی اس سے کہی زیادہ دائی اماں مایوس اداس چہرہ لیکر باہر آئیں.

اداسی کی وجہ معلوم ہوتے ہی سب چہرے سے خوشی معدوم ہوگئ لیکن ڈاکٹر حنا دائی کی بات سے انکار کیا.

ڈاکٹر حنا.. ایسا نہیں ہے۔

دائی اماں.. بٹیا ایسا ہی۔

حنا.. آپ کیسے کہہ سکتی ہیں؟؟

دائی.. اپنے تجربات کی بنیاد پر

اور میں اپنی تعلیم کی بنیاد پر کہ رہی ہوں

بٹیا تھاڑی تعلیم کتنی بکت میں ہوئی ہے

مطلب؟؟

مطبل تو ہے ڈاکٹر بننے میں کتنا بکت لگا


6سال

اور تھاڑی عمر کتنی ہے لالی

32سال

لیکن ان سب کا اس بچہ کی پیدائش سے کیا تعلق ہے؟؟


لالی تو جتنی بکت میں یہ سب سیکھی میں اتنی عمر ای سب کام کر رہی ہو


مطبل 6--7 کی عمر سے جب میں اپنی دادی اماں کے ساتھ جاتی تھی جن سارا گاؤں بڑکی دائی اماں کہتا تھا. اور او جمانے میں ایک عورت کے دو یا تین بچے نہ ہی ہوتے تھے بکلہ ایک عورت بارہ بارہ یا تیرہ تیرہ بچے چنتی تھی 


ہاں ٹھیک ہے لیکن ان باتوں کا ان سے کیا تعلق ہے


بس اتنا ہی کہ ہمرا تجربہ تھاڑی پڑھائی لکھائی اور تھاڑے تجربات سے جادہ ہے. لالی تو نے جندگی میں اتنے سپنے نہ دیکھی ہونگے جتنے ہم نے بچے جنوائے دئیے

دونوں کی گفتگو سے سن کر سارا گھر پریشان تھا لیکن کسی کے کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی. تنگ آکر سکینہ کی ددیا ساس نے کہا کیا بات ہے کوئی ہمیں بھی بتلاوے گا۔

کچھ نہیں بڑی دادی آپ کو پوتا کچھ کمزور ہے ڈاکٹر حنا نےہکلاتے ہو کہا۔

اچھا.. تو اس میں اتنا کاہے کا پریشان ہونا ایسا کھان پان ہوے گا بچے کا دوہی سال میں پہلوان کا بچہ لگے گا. اوپر والے کی دیا سے کونو کمی ہے کیا۔

ڈاکٹر لالی اب جرا ای بتلادو بڑکی دادی کو کہ کون سا حصہ کمجور ہے بچہ کا۔

دائی اماں.. اس بات نے سب کی توجہ اپنی طرف سے مبذول کرلی

اور ڈاکٹر حنا لاجواب ہوگئیں


ڈاکٹر لالی حقیقت ایک بکت تک چھپائی جا سکے ہے ہمیشہ نہ ہی

اے دائی اماں.. کی بات ہے صاف صاف کہی پہیلی نہ بھجائی آخر کا کمی ہے بچے میں..

بڑکی اماں تھاڑا بچواں نہ چھورا نہ ہی چھوری..

کیا کہو تو کیا وہ ہیجڑا ہے؟

ہاں بڑکی اماں..

ادھر دائی اماں کی زبان سے ہیجڑا لفظ نکلا.. اور ادھر بڑکی دادی کی زبان سے سکینہ یعنی میری ماں کے لئے طعنے جس کی وہ تاب نہ لا سکی اور چلی بسی

جمال کی آنکھوں سے آنسو کا سیلاب جاری ہوگیا....

لیکن تم ان لوگوں میں کیسے آگیے

پروفیسر علی فاطمی  نے جمال سے دریافت کیا

'' میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں،،

جمال نے شعری انداز میں پروفیسر کو جواب دیا

مگر کیسے؟؟؟

سکینہ یعنی میری ماں کے گزرجانے کے بعد یہ بات سارے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئ کہ عقیل یعنی میرے والد کی لگائی نے ہیجڑا جنا ہے۔

اور یہ بات ہیجڑے کے لیڈر کو معلوم ہوگئی جو قانونی طور پر اپنا ایک رسوخ رکھتا تھا.. اور وہ اگلے دن کچھ وکلاء اور پولیس والوں کے ساتھ گھر پر آگیا.. اور قانونی مدد سے مجھے اپنے ساتھ لے آیا میرے گھر والوں نے اس کی مزمت بھی نہیں اور کرتے بھی کیوں میں تو ان کے لیے ایک نحوست، بدشگن،، تھا اس لیے انہوں نے بڑی آسانی کے ساتھ مجھے ان کے ساتھ بھیج دیا..

سر.. جمال نے پروفیسر فاطمی کو مخاطب کر تے ہو ئے کہا

ہم کیسے سماج میں رہتے ہیں جہاں عورت اور مرد کو تو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن خدا کی ایک مخلوق کو نہ عزت سے دیکھا جاتا بلکہ منحوس سمجھا جاتا ہے.

جمال.. اس قیامت سے عورت ذات نے ایک بڑی جنگ کی ہے اور آج بھی مختلف سماج و معاشرہ میں ان کی جنگ جاری ہے۔

مگر اتنی گری ہوئی نگاہ سے کوئی سماج یا معاشرہ نہیں دیکھتا جتنا ہماری نسل کو دیکھا جاتا ہے۔

اچھا جمال یہ بتاؤ تم نے یہاں تک کی تعلیم کیسے حاصل کی اور تم ان لوگوں سے اتنے کیسے الگ نکلے جبکہ تمہارا آج بھی ان کے ساتھ رہنا سہنا ہے۔

سر.. ہر مخلوق میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں ان لوگوں میں بھی ہیں.

جب مجھے ہیجڑے کی لیڈر اپنے ساتھ لے آیا تو اس نے میری پرورش کا ذمہ کانتا نامی ایک ہیجڑے کو دی. اور جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا مجھے نہ جانے کیوں ناچنے گانے سے قدرتی طور پر نفرت ہونے لگی. بکلہ معاملہ یہ تھا جہاں میں آج بھی رہتا ہوں وہاں سے صبح صبح اسکول کے بچوں کی بس گزرتی تھی میں ان کو روزانہ دیکھتا ایک دن میں کانتا جن کو میں کانتا آئی کہتا ہوں ان سے کہا کہ میں پڑھنا چاہتا ہوں۔

پہلے تو انہوں نے مجھے بہت سمجھایا کہ معاشرے میں ہمارا حال عورت ذات سے بھی برا ہے اور ہمیں معاشرے منحوس گردانا جاتا ہے۔

لیکن میری ضد کے سامنے وہ ہار مان گئیں اور مجھے نزدیکی سرکاری اسکول داخلہ دلا دیا کانتا آئی جانتی تھی کہ میرا جنم ایک مسلم گھرانے میں ہوا ہے اس لیے انہوں نے ایک مسجد کے امام سے میرا نام رکھنے کو کہا جو اسکول میں لکھوایا جا سکے امام صاحب نے میرے صورت کو دیکھ کر میرا نام جمال رکھ دیا۔

سر میں شکل صورت کا برا تب نہیں تھا جب ڈاکٹر حنا مجھے چاند کا ٹکڑا کہا اور آج بھی نہیں ہوں. کمی میری صورت یا سیرت میں نہیں میرے جسم کے ایک اہم اعضاء میں تھی. جو قدرتی طور پر تھی اس میں میرا یا میری ماں یا کسی کمیونٹی کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، سر مجھے یہ سمجھ نہیں آتا جب یہ دنیا. ایک نابینا. ایک ہاتھ پیر سے معزور. گونگے بہرے کا سماجی حق دیتی ہے اور ان کے حق کے لیے لڑتی ہے تو ہم ہیجڑوں کے ساتھ سوتیلا معاملہ کیوں؟؟؟؟ 

لیکن تم نے یہاں تک کی تعلیم کس طرح حاصل کی اور تمہاری کمیونٹی کے لوگوں نے خاص کرکے وہ لیڈر جو تم کو تمہارے گھر سے لایا تھا اور جس کا قانون سطح پر بھی بہت رسوخ رکھتا تھا کیا وہ آسانی کے ساتھ تمہاری تعلیم کے لئے راضی ہو گیا؟

نہیں سر..

  '' ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے،،

ساری کمیونٹی اور لیڈر نے اس کی مخالفت کی کیوں کہ وہ ان کے معاشرے اور روایات کے خلاف بات تھی.

سر ہر روایت میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ روایت تاریخ کے اوراق ایک گمنام مذاق بن کر رہ جاتی ہے. اور اس تبدیلی کے لئے اسی روایت کے ماننے والوں سے کوئی اٹھتا ہے جو فرسودہ روایت میں تبدیلی کرنے پر اسرار کرتا ہے اور کبھی کبھی جنگ بھی کرنی پڑتی ہے... 

کانتا آئی نے بھی جنگ لڑی لیکن ان کو اپنی جان کی قیمت نہیں دینی پڑی بلکہ لگان دینا پڑا اور وہ لگان یہ تھا کہ کانتا آئی جوکماتی اس کا ساٹھ فیصد کمیونٹی کے فنڈ میں جمع کرتی باقی سے مکان کا کرایہ. بجلی کا بل.. میری پڑھائی کا خرچہ.. اور کھانا پینا چلتا. کانتا آئی ہندو ہے یا مسلمان نہیں جانتا اور جاننا بھی نہیں چاہتا وہ مرد ہے یا عورت اس سے بھی مجھے فرق نہیں پڑتا. وہ میری ماں کا درجہ رکھتی  ہیں یا باپ کا یہ جان کر بھی کیا کرنا؟؟

لیکن آج میں جو کچھ ہوں اس میں کانتا آئی کا ہی ہاتھ ہے.

تم نے وکالت تو پوری کرلی آگے کا کیا ارادہ ہے کیا تم ابھی اسی مکان اور اسی معاشرے میں رہو گے یا سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور چلے جاؤگے

نہیں سر مجھے اپنی کمیونٹی کے ساتھ رہنے میں کوئی پریشانی نہیں بلکہ اب تو وقت آیا ہے ان کو سماج میں وہ مقام دلانے کا جو آپ کو آپ کی کمیونٹی کو حاصل ہے کانتا آئی نے میری پڑھائی کے لیے اپنے سماج اپنے معاشرے اپنی روایات سے جنگ اور اب میں ان کی یعنی اپنی ہیجڑوں کی کمیونٹی کے قانونی جنگ لڑوں گا۔

سر میں تو فیزیکل ہیجڑا تھا لیکن میرا باپ نفسیاتی طور پر ہیجڑا تھا جو اپنے نطفے بنی اپنی اولاد کو سینے سے نہیں لگا سکا جبکہ کانتا آئی نے نہ صرف گلے سے لگایا بلکہ وہ مقام دیا کہ آپ جیسے پروفیسر بھی اس ہیجڑے کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سر.. فیزیکل ہیجڑا ہونا کوئی عیب نہیں نفسیاتی اور ذہنی طور  پر ہیجڑا ہونا عیب ہے۔

جو میں نہیں میرا باپ تھا بلکہ حیات خاندان کا ہر فرد جو اپنے آپ کو مرد کہتا ہے۔


عبد المنان صمدی..... 


 ٢/مارچ/٢٠٢٠... بروز یکشبہ.. علی گڑھ 

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

if you want to ask something feel free to ask.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نوجوان مصنفہ مہر یکتا کا تعارف

خیر الدین اعظم کا تعارف اور شاعری

نوجوان نسل کے شاعر عبدالمنان صمدی